قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے پنجاب میں ممکنہ سیلاب سے بچاؤ کے لیے دریاؤں کے پشتے اور آس پاس کی آبادیوں کو بچانے کی حکمت عملی پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے پنجاب فیصل فرید کا کہنا ہے کہ بھارت میں شدید بارشوں سے کئی اضلاع میں سیلابی صورت حال پیدا ہو چکی ہے اور خدشہ ہے کہ اگر وہاں سے پانی چھوڑا گیا تو دریائے چناب میں سیلاب کا خطرہ ہوگا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے مون سون بارشوں سے پیدا ہونے والی ممکنہ سیلاب کی صورت حال سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور ’ہم نے پہلے سے زیادہ موثر اقدامات کرنے شروع کر دیے ہیں۔‘
وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے گذشتہ دنوں اپنے ایک بیان میں خبردار کیا تھا کہ پاکستان میں رواں سال کم از کم اگست تک مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ صوبہ پنجاب اور سندھ میں معمول سے زیادہ بارشیں ہونے کا امکان ہے جبکہ مون سون کے آغاز نے پہلے ہی بھارت اور بنگلہ دیش میں ہنگامی صورت حال پیدا ہو چکی ہے، جس کے بعد پاکستان میں بھی 2010 جیسے سیلاب کا خدشہ ہے۔
جس کے بعد فیڈرل فلڈ کمیشن، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی سمیت صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز نے بھی تیاریاں شروع کر دیں۔
مزید پڑھیے: اگست تک بارشیں، 2010جیسے سیلاب کا خدشہ: شیری رحمان
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں پی ڈی ایم اے پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل فیصل فرید نے بتایا کہ ’سیلاب کے باعث دریائے سندھ، چناب اور راوی سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے، لہذا ان دریاؤں کے پشتے مضبوط اور تجاوزات ختم کروانے کی کوششیں کی گئی ہیں تاکہ سیلاب کے دوران ہنگامی صورت حال سے بچا جاسکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ریسکیو ٹیموں اور دیگر اہلکاروں کو بھی تربیتی مشقیں کرائی جا چکی ہیں۔ ’ہمارا عملہ بھی ہر طرح سے الرٹ ہے۔‘
بقول فیصل جاوید: ’جس طرح بھارت میں شدید بارشوں سے کئی اضلاع میں سیلابی صورت حال پیدا ہو چکی ہے، اس سے خدشہ ہے کہ وہ اضافی پانی ایک بار پھر دریائے چناب میں چھوڑیں گے، جس سے جھنگ سے مظفر گڑھ تک بیلٹ میں سیلاب کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ میں بھی بالائی علاقوں میں بارشوں اور برف پگھلنے سے پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھنے کا امکان ہوتا ہے۔
فیصل فرید نے بتایا کہ ’دریائے جہلم اور ستلج میں زیادہ پانی کا امکان نہیں ہوتا، لہذا ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اگر پانی زیادہ آجائے تو جہلم اور راوی کا اضافی پانی بیراج روک کر کنٹرول کیا جائے یا ان میں منتقل کر دیا جائے، لیکن چناب میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہونے کا زیادہ خطرہ اس لیے بھی ہوتا ہے کہ اس دریا پر بھارت یا پاکستان میں کوئی ڈیم نہیں بنا، جس سے پانی کنٹرول کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے: طاقتور مون سون سیلاب، کمزور قحط سالی لاتا ہے،مون سون ہے کیا؟
ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے کے مطابق سیلاب کس حد تک خطرناک ہوسکتا ہے اس کا اندازہ قبل از وقت لگانا مشکل ہےکیونکہ غیر یقینی صورت حال پیدا ہونے سے کہیں بھی غیر متوقع پانی میں اضافہ اور کوئی بھی بند ٹوٹنے کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔
’لہذا ہم وسائل کے مطابق کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں اور ہائی کمان جو بھی ہدایات دے رہی ہے اسے فالو کیا جا رہا ہے، حالات پر مکمل نظر رکھی ہوئی ہے۔ ہماری توجہ ہر وقت دریاؤں میں پانی کے اتار چڑھاؤ پر ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ دریاؤں کے قریب پنجاب میں آبادیاں زیادہ اور دریاؤں کے اندر تجاوزات ایک بڑا چیلنج بنتی ہیں کیونکہ سیلاب کو روکنے کے ساتھ انسانی زندگیاں بچانے کے لیے بھی فوری اقدامات کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے، اس لیے لوگوں کو بھی تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔