پاکستان میں احتساب کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نیب کے قانون میں تبدیلیاں موجودہ اور سابق حکومتوں نے اپنے فوائد حاصل کرنے کے لیے کی ہیں تاہم زیادہ فائدہ موجودہ حکومت کو ہوتا نظر آ رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں نیب قوانین میں ترامیم سے متعلق بحث چھڑی ہوئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخلوط حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں کو کیسز میں بڑا ریلیف حاصل کرنے کے لیے نیب قانون میں تبدیلیاں کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
اس سلسلے میں پی ٹی آئی نے باضابطہ طور پر نیب قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا ہوا ہے۔
ان ہی الزامات کا گہرائی میں جاکر جائزہ لینے اور متعلقہ قوانین کے ماہرین سے گفتگو کرکے یہ بات واضح ہوگی کہ اس کا فائدہ ماضی اور حال میں کس کو ہوا یا ہو رہا ہے۔
نیب قوانین میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں؟
قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی شق 14 کے تحت بارِ ثبوت پراسیکیوشن یعنی نیب کے بجائے ملزم پر تھا۔ اس شق کو موجودہ حکومت نے ختم کر دیا ہے اور اب بارِ ثبوت پراسیکیوشن پر آ گیا ہے (یعنی اب الزامات ثابت کرنا ملزم نہیں نیب کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ عائد کیے جانے والے الزامات کو عدالت میں ثابت کرے۔)
حکومت نے ترمیم کرکے شق نو اے کی ذیلی شق پانچ میں وضاحت شامل کی ہے جس کے مطابق منقولہ اثاثے کے حساب کتاب کے لیے بینک اکاؤنٹ میں آنے والی مجموعی رقم کو اثاثے کے طور پر نہیں لیا جائے گا بلکہ جس روز انکوائری کا آغاز ہوگا اسی روز سے ہی ملزم کے بینک بیلنس کو اثاثے کے طور پر لیا جائے گا۔ بینک کی لین دین کو بھی اس وقت تک اثاثے کے طور پر نہیں لیا جائے گا جب تک اس لین دین سے دیگر اثاثے بنائے جانے کا ثبوت موجود نہ ہو۔
شق 21 کے مطابق پی ٹی آئی حکومت میں تمام ثبوت، دستاویزات اور دیگر مواد جو بیرون ملک سے پاکستان بھیجے جاتے ہیں انہیں نیب قانون کے تحت قانونی سماعت کے دوران قابل وصول ثبوت کی حیثیت حاصل تھی۔ حکومت نے اس شق میں ترمیم کرتے ہوئے بیرون ملک سے آنے والی دستاویزات کو عدالت کے لیے ناقابل قبول ثبوت قرار دے دیا ہے۔
نیب کے پرانے قوانین کے مطابق چیئرمین نیب کے پاس وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اختیار برقرار رہے گا لیکن ترامیم کے بعد یہ اختیار مشروط ہوگا۔
حکومت کی جانب سے کی گئی ترامیم کے تحت لفظ ’بے نامی دار‘ اور ’اثاثوں‘ کی تعریف کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
قانون میں ’اثاثہ‘ کی تعریف پہلے ملزم کے نام، شریک حیات یا رشتہ دار کے پاس بالواسطہ یا بلاواسطہ جائیداد تھی۔ اب اس میں ترمیم کر کے صرف ملزم یا اس کے بے نامی دار کے نام کی جائیداد کو تعریف میں شامل کیا جائے گا۔
مخلوط حکومت نے شق 23 یعنی ’ملزم عدالت کی اجازت کے بغیر انکوائری اور تفتیش کے دوران اپنی جائیداد کو بیچ نہیں سکتا‘ کو حذف کر دیا ہے۔
آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس اب ثابت نہیں ہو سکے گا؟
نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ قوانین نہ صرف موجودہ حکومت کے حق میں ہیں بلکہ پی ٹی آئی حکومت بھی اس کی بینیفشری ہوگی کیوں کہ پی ٹی آئی پر کیسز بننے کی بھی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔‘
بقول عمران شفیق: ’موجودہ حکومت نے اختیارات کے غلط استعمال سے متعلق کیسز پر دوبارہ وہی مواد پیش کیا ہے جو عمران خان کے دور حکومت نے دو آرڈیننس کے ذریعے کیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کی گئی آمدن سے زائد اثاثہ جات میں ترامیم درست نہیں ہیں، جن سے کچھ سیاست دانوں کو فائدہ ہوگا۔
’ان ترامیم میں سے ایک نیب کی جانب سے آمدن سے زائد اثاثہ جات ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ ’بدعنوانی‘ اور ’بے ایمانی‘ ثابت کرنا ہے۔ آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس اسی لیے تھا جب یہ دونوں براہ راست ثابت نہ کیے جاسکیں۔‘
عمران شفیق کے مطابق: ’ترامیم کے بعد لفظ ’کرپشن‘ اور ’بے ایمانی‘ کا اضافہ اقوام متحدہ کے اینٹی کرپشن کنونشن، ہانگ کانگ کنونشن، کرپشن سے متعلق مسلمہ قوانین یا کسی بھی بین الاقوامی فورم پر آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تعریف سے متصادم ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے منظور ہونے والا اینٹی کرپشن ایکٹ 1947 تھا۔ اس قانون میں بھی آمدن سے زائد اثاثہ جات کی وہی تعریف ہے جو ان ترامیم سے پہلے تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سب کے برعکس یہ تعریف متعارف کروائی گئی ہے جس سے آمدن سے زائد اثاثہ جات کے جرم کی نوعیت بھی بدل گئی ہے اور یہ جرم اب کبھی بھی پاکستان کی عدالتوں میں ثابت نہیں ہو سکے گا۔
لیکن تقریباً 80 فیصد ترامیم ٹھیک ہیں جن میں ضمانت اور ریمانڈ کے حقوق شامل ہیں۔ نیب پر بار ثبوت ڈالنے کی بھی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ جب اثاثوں کے حوالے سے ملزم سے پوچھا جائے گا تب بھی وہ کیس بنے گا۔
’اختیارات کے غلط استمعال سے متعلق ترامیم بہترین ہیں‘
سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق کا مزید کہنا تھا کہ پچھلی حکومت نے گذشتہ چار سال سمجھوتہ کرنے والے چیئرمین نیب کو تعینات کیے رکھا جسے دو بار آرڈیننس کے ذریعے ملازمت میں توسیع دی گئی۔
’عمران خان نے چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی اور برطرفی کا قانون آرڈیننس کے ذریعے بدل کر نیب کو اپنا ذیلی ادارہ بنا لیا تھا اور پی ٹی آئی حکومت نے پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی تھی جسے تبدیل کر کے اصغر حیدر کو دوبارہ تعینات کیا گیا۔‘
ان کے مطابق: ’موجودہ حکومت نے اسے دوبارہ تبدیل کر دیا ہے۔ چیئرمین نیب کو برطرف کرنے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کا تھا جس کو پی ٹی آئی حکومت نے تبدیل کر کے وہ اختیار صدر کو دے دیا تھا۔ مخلوط حکومت نے یہ قانون دوبارہ کونسل کو دے دیا ہے۔ اختیارات کے غلط استعمال سے متعلق یہ دونوں ترامیم بہترین ہیں۔‘
’خاندان اب اثاثہ جات کی وضاحت نہیں دے گا‘
سابق ڈائریکٹر جنرل نیب شہزاد بھٹی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آمدن سے زائد اثاثہ جات کا جرم ثابت ہونا اب نا ممکن ہے۔ حکومت نے نیب کی خود مختاری کو ختم کرتے ہوئے صدر مملکت سے لے کر وزارت داخلہ کے ماتحت کر دیا ہے۔ یہ ادارہ کسی کو جوابدہ اس لیے نہیں تھا کہ اس میں کوئی مداخلت یا اثر رسوخ استعمال نہ کر سکے۔‘
پی ٹی آئی دور حکومت میں توسیع کی ترامیم سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کی امید سے ہر فرد حکومتِ وقت کے بیانیے کو فوقیت دے سکتا ہے اور جانبدار ہو جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان ترامیم کے بعد اگر کوئی کیس احسن طریقے سے انجام تک نہیں پہنچے گا تو کیس بنانے والے کو پانچ سال تک کی سزا دی جائے گی۔
’اس کے بعد کون سا تفتیش کار کیس عدالت میں لے کر جانا چاہے گا؟ غلطی چاہے پراسیکیوٹر کی ہو لیکن تفتیش کار پھنسے گا۔‘
سابق ڈائریکٹر جنرل نیب شہزاد بھٹی نے کہا کہ ان ترامیم سے پہلے کارروائی شروع ہوتے ہی کوئی بھی اثاثہ فروخت نہیں ہوسکتا تھا لیکن اب اسے تبدیل کردیا گیا ہے اور اب انکوائری کے دوران اثاثہ جات بیچے یا ٹھکانے لگائے جاسکتے ہیں۔
اس سے یہ ہوگا کہ جب بھی کسی کے خلاف کارروائی شروع ہوئی وہ فوراً اثاثے کو بیچ دے گا۔
’پہلے ملزم کے خاندان کو بھی اثاثوں کی وضاحت دینا پڑتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہو سکے گا۔ یہ ایسی ترامیم ہیں جو چیلنج کی جائیں تو رہ سکیں گی۔‘
حکومت کا موقف
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں پی ٹی آئی کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ’بتایا جائے کہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ اس قانون کے آتے ہی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے خلاف کیسز ختم ہوجائیں گے؟‘
پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور ماہر قانون سینیٹر فاروق ایچ نائیک کا کہنا ہے کہ ریلیف والے سیکشنز تو سابقہ حکومت خود تین آرڈیننس میں لے کر آئی تھی اور وہی آرڈیننس اس قانون کا حصہ ہیں۔
’اگر ریلیف ملنا ہوا تو ریلیف سب کو برابر ملے گا، چاہے وہ بیوروکریٹ ہو، چاہے پرائیویٹ پرسن ہو یا سیاست دان ہو، یہ قانون سب کے لیے ہے۔‘
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کو نیب کیسز میں ریلیف ملنے کا تاثر غلط ہے۔ اگر ریلیف دینا ہوتا تو ہم قانون میں شق ڈال دیتے کہ جتنے بھی باقی ماندہ کیسز ہیں وہ واپس لے لیے جائیں گے لیکن قانون میں کوئی ایسی شق نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ این آر او تو یہی ہے نہ کہ آپ کسی کو مقدمہ واپس لینے کا اختیار نہیں ہے۔
’بتایا جائے کہ وہ کون سی شق ہے جس کی بنیاد پر ریلیف ملنے کی بات کی جا رہی ہے؟ موجودہ حکومت نیب کے کالے قانون کو ختم کرکے اسے قانون کے دائرے میں لائی ہے، اس قانون کے مطابق غیر قانونی فائدہ کسی کو نہیں ہے۔‘