چیئرمین پی سی بی رمیزراجہ نے آج قومی اسمبلی برائے بین الصوبائی رابطہ کمیٹی میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’میری تنخواہ صفر ہے، پی سی بی چیئرمین کی تنخواہ کچھ نہیں لیکن گالیاں پڑتی ہیں۔ جب عہدے کی پیشکش ہوئی تھی تو گھر میں ووٹنگ کرائی، میرے بچوں نے کہا کہ میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘
رکن کمیٹی مہرین بھٹو نے رمیز راجہ سے کہا کہ چیئرمین پی سی بی رمیزراجہ اپنی مراعات بتائیں۔ تو رمیز راجہ نے کہا کہ ’میری تنخواہ تو زیرو ہے۔ مجھے مراعات ملتیں ہی نہیں تو پی سی بی کو کیا واپس کروں گا؟‘
انہوں نے بتایا کہ ’بطور پی سی بی چیئرمین دوروں کے لیے اب تک صرف ڈھائی لاکھ تین ماہ میں استعمال کیے ہیں۔ مجھے میڈیکل الاؤنس کی ضرورت نہیں ، اب بھی دوڑتا ہوں، مجھ پہ ڈیتھ تھریٹ ہے جس کے لیے مجھے بلٹ پروف گاڑی صرف اس لیے استعمال کرنی پڑی کیونکہ مجھے جان کا خطرہ تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے انٹرٹینمنٹ الاؤنس ابھی تک پی سی بی سے نہیں لیا۔‘
رمیزراجہ نے مزید بتایا کہ ’نو مہینے ہوگئے بطور چیئرمین پی سی بی لیکن ایک بھی غیرملکی دورہ نہیں کیا۔ تنخواہوں کی بات کریں تو پی سی بی میں تنخواہیں عالمی مارکیٹ سے بہت کم ہیں۔ اچھے پروفیشنل کے لیے اچھی تنخواہیں دینی پڑتی ہیں۔‘
مہرین بھٹو نے سوال اُٹھایا کہ پچھلے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے اپنی مدت ملازمت پی سی بی میں پوری نہیں کی تو رمیز راجہ نے بتایا کہ وہ اب آئی سی سی میں اچھی پوسٹ پر لگ گئے ہیں۔
تنخواہوں کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ تنخواہیں میڈیا کے پاس جانے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو نقصان ہوتاہے۔ میڈیا چینل پاکستانی کرکٹ کو کم فروغ دیتےہیں۔ ’پاکستان کرکٹ نیچے جاتی ہے تو میڈیا گریبان سے ہمیں پکڑ لیتاہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر پی سی بی کا آڈٹ ہوا ہے تو کاپی قائمہ کمیٹی کو بھیجوا دیں۔‘ اس پر رمیز راجہ نے کہا کہ ’ضرور، آڈٹ کی کاپی قائمہ کمیٹی میں ضرور لائیں گے۔‘
پیر کے روز پارلیمنٹ میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کا اجلاس نواب شیر کی صدارت میں ہوا۔ کمیٹی میں چیئرمین پی سی بی رمیزراجہ کے ہمراہ بورڈ کے چیف ایکزیکٹیو فیصل حسنین اور ڈائریکٹر این ایچ پی سی ندیم خان نے شرکت کی۔
چیئرمین کمیٹئ نے اجلاس کے آغاز میں کہا کہ کمیٹی اراکین کو اجلاس کے لیے پی سی بی نے دعوتِ دی تھی۔ کمیٹی اراکین نے جب پی سی بی سے رابطہ کیا تو کوئی جواب نہیں ملا۔ اس پر چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے کہا کہ ایسا معلوم نہیں ، پی ایس ایل میں آپ کو ضرور مدعو کرنا تھا۔ پی سی بی اور قائمہ کمیٹی دو مختلف ذہنیت پر ہیں، ضرور مل کر بیٹھنا چاہیے۔
پی ایس ایل میں مدعو نہ کیے جانے پر اراکین کمیٹی نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ کیا ہماری عزت نہیں؟ ہم نے رابطہ کیا ہمیں پی سی بی سے کوئی جواب نہیں ملا۔ اس پر سی او او پی سی بی سلمان نصیر نے ریمارکس دیے کہ کمیٹی اراکین کو پی ایس ایل میں ضرور مدعو کرنا تھا۔ ’پریشر بہت تھا پی ایس ایل میں جس کے باعث مدعو نہ کر سکے معذرت کرتے ہیں۔‘
چیئرمین پی سی بی رمیزراجہ نے قائمہ کمیٹی میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ستمبر 2021 میں بطور چیئرمین پی سی بی کا عہدہ سنبھالا تھا۔ رمیزراجہ نے چیئرمین پی سی بی سے کہا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس پر پریزینٹیشن دیں۔ رکن کمیٹی مہرین بھٹو نے کہا کہ پی سی بی والے اتنی زیادہ تنخواہیں لے رہے ہیں، انہیں پریزنٹیشن کا نہیں معلوم تھا۔
پی ایس ایل خواتین کے لیے فروری میں منعقد کی جائے گی: چیئرمین پی سی بی
چیئرمین پی سی بی رمیزراجہ نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس سب سے زیادہ اس وقت ریزروز ہیں۔ اکسٹھ کروڑ روپے پی ایس ایل کے فرنچائزرز کو ملا ہے۔ پاکستان کی رینکنگ میں بہتری آئی ہے، بھارت کو پاکستان نے شکست دی ہے۔‘
انہوں نے کہا جب میں کرکٹ کھیل رہا تھا تو تب بھی بھارت کو عالمی کپ میں نہیں شکست دے پائےتھے۔ پی ایس ایل خواتین کے لیے فروری میں منعقد کی جائے گی، پاکستان جونیئر لیگ اکتوبر میں ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’فخر ہے کہ حکومت سے ایک پیسہ پی سی بی نہیں لیتا، پی سی بی اپنا پیسہ خود بناتاہے۔ پاکستان میں کرکٹ سٹیڈیم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ نیشنل سٹیڈیم کراچی اور پنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں سیٹیں لگانے کی ضرورت ہے۔ کرکٹ شائقین کو سیڑھیوں پر بٹھانا اچھی بات نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پی سی بی کو زیادہ فنڈنگ اس وقت ائی سی سی سے آتی ہے۔ پی سی بی چاہتاہے کہ اپنا پیسہ خود بنائے جس کے لیے پاکستان جونیئر لیگ لا رہے ہیں۔ 28 کمپنیوں نے پاکستان جونیئر لیگ میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
پچوں کے لیے آسٹریلیا سے مٹی منگوائی جا رہی ہے
چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے بتایا کہ آسٹریلیا سے مٹی آرہی ہے جس سے پاکستان میں پچوں میں مزید بہتری آئے گی۔ شائقین کرکٹ کے لیے فین زونز بنا رہے ہیں کیونکہ سٹیڈیم پہنچتے ہوئے انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہا کہ ماضی میں دورہ نہ کرنے کا ازالہ کرنے کےلیے انگلینڈ اور نیوزی لینڈ اضافی میچ کھیلنے پاکستان آرہے ہیں۔
یہ سُن کر چیئرمین قائمہ کمیٹی نے رمیز راجہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ رمیزراجہ کے پاکستان کرکٹ بورڈ میں آنے سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہوا ہے انہوں نے رمیزراجہ سے کہا کہ اراکین کے سوالات سے گھبرانا نہیں ہے۔
رکن کمیٹی مہرین بھٹو نے استفسار کیا کہ کتنے سٹیڈیم بنائے؟ کتنے سٹیڈیم میں سیٹیں بنائیں؟ کتنے گراؤنڈز کلب کرکٹ کے لیے بنائے؟ کیا پاکستان میں اچھی مٹی نہیں جو آسٹریلیا سے منگوا رہے ہیں؟ رمیز راجہ نے جواب دیا کہ 2004 سے اب تک 15 سے 20 گراؤنڈز پی سی بی نے بنائے ہیں۔ ٹیکنیکل بات ہے، آسٹریلیا کی مٹی میں باؤنس زیادہ ہوتاہے۔ آسٹریلیا میں رواں سال ورلڈکپ کی پریکٹس کے لیے آسٹریلیا سے مٹی منگوائی ہے۔ جب پچوں میں باؤنس نہیں ہوتا تو اچھی بیٹنگ اور باؤلنگ کی پریکٹس نہیں ہو سکتی۔
اس پر رکن کمیٹی مہرین بھٹو نے تنقید کرتے ہوئے طنزاً کہا کہ ’پی سی بی اپنے پیروں پر نہیں کھڑی ہوئی، عوام کے پیسوں سے کھڑے ہوئے ہیں۔ فوڈ سٹریٹ جو سٹیڈیموں کے ساتھ بنی ہے، اس کا پیسہ کہاں ہے؟‘
رمیز راجہ نے بتایا کہ سی ڈی اے کو اسلام آباد میں سٹیڈیم بنانے کے لیے خط لکھا ہوا ہے تاکہ چیمپیئن ٹرافی کے لیے استعمال کر سکیں۔ ماضی میں حکومت نے لیز پر گراؤنڈ دیے جس پر پی سی بی نے پیسے لگائے۔ فوڈ سٹریٹ صرف نیشنل سٹیڈیم کراچی کے ساتھ ہے، دیگر سٹیڈیم پی سی بی کے تحت نہیں۔
پاکستان سپورٹس بورڈ میں سیکیورٹی اہلکاروں کی رہائش کا معاملہ
ڈی جی سپورٹس بورڈ نے کمیٹی کو بتایا ’2000 سکیورٹی اہلکار پاکستان سپورٹس بورڈ میں موجود ہیں۔ سکیورٹی اہلکاروں نے پاکستان سپورٹس بورڈ تباہ کردیا ہے۔‘ کمیٹی اراکین نے پاکستان سپورٹس بورڈ میں سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے سے نوٹس لینے کا مطالبہ کر دیا۔
کشمیر پریمئیر لیگ کو این او سی دے دیا گیا
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ پاکستان سپر لیگ میں کوئی مالی بے ضابطگی نہیں ، سب اچھا ہے۔ پی ایس ایل کی فرنچایزز کے ساتھ جلد میٹنگ ہے۔ رمیز راجہ نے بتایا کہ پی ایس ایل جب شروع ہوا تو فنانشل ماڈل ٹھیک نہیں تھا۔ فنانشل ماڈل میں خرچے اور نقصان زیادہ تھا۔ اب 95 فیصد منافع فرنچائزرز کو جاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کشمیر پریمیئر لیگ کے فرنچائزر اور مالکان کے درمیان مالی مسئلوں پر لڑائیاں ہوئی تھیں لیکن کشمیر پریمیئر لیگ نے اپنی مالی رپورٹ کلئیر کی جس کے بعد این او سی دے دیا ہے۔
سندھ میں کرکٹ گراؤنڈ کب بنایا جائے گا؟
کمیٹی میں رکن کمیٹی نے سوال اُٹھایا کہ لاڑکانہ کے کرکٹرز کے لیے سٹیڈیم کیوں نہیں بنایا جارہا؟ کرکٹ میچ کیوں نہیں ہورہے؟ رمیز راجہ نے بتایا کہ سندھ میں کرکٹ کےحوالے سے ڈیویلپمنٹ ہورہی ہے۔ شاہنواز دہانی لاڑکانہ سے جبکہ زاہد محمود دادو سے تعلق رکھتےہیں بلوچستان میں کرکٹ کو فروغ دینا چاہتےہیں۔ اگلے چھ ماہ میں سندھ اور بلوچستان میں کرکٹ کو فروغ دینا ہے۔
ڈائیریکٹر این ایچ پی سی ندیم خان نے بتایا کہ سندھ کی حکومت کے ساتھ سندھ میں کرکٹ کو فروغ دینے کے لیے بات جاری ہے۔ اندرون سندھ سے پانچ فاسٹ بولرز ملے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے لاڑکانہ کا سٹیڈیم دیکھا ہے، بہت بہترین سٹیڈیم ہے۔ 93 ڈسٹرکٹ کی ٹیمیں پاکستان میں کھیل رہی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں چھوٹے شہروں سے کرکٹرز آرہے ہیں۔
رمیز راجہ نے مزید بتایا کہ پنجاب حکومت 33 گراؤنڈ پی سی بی کو دے رہی ہے جن پر پی سی بی انویسٹ کرے گی۔ جب گراؤنڈ مقامی انتظامیہ کے زیر انتظام گئے تو گراؤنڈز میں باتھ روم دستیاب نہیں تھے۔ ہمیں مقامی انتظامیہ مدد کرے تو پی سی بی گراؤنڈز میں پیسے لگانے کو تیار ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جولائی میں 100 بچوں کے لیے ڈیویلپمنٹ کا پروگرام شروع کروا رہے۔ 100 بچوں کو مفت پڑھائی ملے گی اور 30 ہزار وظیفہ ملے گا۔ ا
سی دوران چیئرمین قائمہ کمیٹی نے اجلاس میں چائے پانی نہ ہونے کا شکوہ کیا تو رکن کمیٹی مہرین بھٹو نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے ہدایات ہیں کہ پانی اپنے پیسوں سے لے کر پئیں۔