پاکستانی حکومت کی جانب سے گاڑیوں کی درآمدات کے حوالے سے پالیسی میں ترمیم کے بعد عوام اور بطور خاص کار ڈیلرز میں سخت مایوسی دیکھنے میں آئی ہے۔کیونکہ اس فیصلے کے بعد جاپان اور کوریا سے آنے والی استعمال شدہ گاڑیاں اب انتہائی مہنگے داموں ملیں گی۔
پاکستانی ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ گاڑیاں درآمد کرانے پر سخت شرائط لگا کر حکومت زر مبادلہ بچانا چاہتی ہے ۔ان کے مطابق جب درآمدات کم ہوں گی تو ملکی مصنوعات پر انحصار بڑھے گا، جس سے روپے کی قدر میں اضافہ ہوگا۔
دوسری جانب عوام کا کہنا ہے کہ وہ اسی لیے غیر ملکی پروڈکٹس پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کی کوالٹی اچھی ہوتی ہے۔جبکہ پاکستانی گاڑیاں اور دیگر مصنوعات نہ صرف مہنگی ہوتی ہیں بلکہ ان کا معیار بھی نہایت خراب ہوتا ہے۔
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان آصف خان یوسفزئی کا کہنا ہے کہ گاڑیوں میں کوئی جاپان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جاپان کی 2014 ماڈل سیڈان میں جو خصوصیات ہیں وہ پاکستانی 2019 ماڈل سیڈان میں نہیں ہیں۔
پشاور کے ایک آٹو ڈیلر محمد سعد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نئی آٹو پالیسی سے ان کا کام کافی مشکل ہو گیا ہے اور اب وہ بیرون ملک سے زیادہ گاڑیاں درآمد نہیں کر سکیں گے۔
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پہلے وہ کسی بھی ٹیکس فری زون کے باشندے کا پاسپورٹ استعمال کرکے اسے ’کنسائنی‘ یعنی سپرددار ٹھہرا دیتے تھے اور پاسپورٹ کے مالک کو اس کے بدلے کچھ پیسے دے دیتے تھے۔
بقول سعد: ’یہ سب بہت آسان تھا، کیونکہ اس طرح سے ہم سینکڑوں گاڑیاں درآمد کرتے تھے۔تاہم اب حکومت نے کنسائنی کے لیے کچھ شرائط رکھ دی ہیں، جس کی وجہ سے اب زیادہ گاڑیاں درآمد کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔‘
نئی شرائط کے مطابق باہر سے گاڑی درآمد کرنے والے شخص کے لیے لازمی ہوگا کہ اس نے دو سال باہر گزارے ہوں، لہذا اس کا پاسپورٹ چیک کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ گاڑی خریدنے کے لیے رقم بینک کے ذریعے غیر ملکی کرنسی میں ادا کی جائے گی۔ جس کی تصدیق کے لیے متعلقہ بینک سے سرٹیفیکیٹ لیا جائے گا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اسلام آباد دفتر کا آٹو پالیسی میں ترمیم کے حوالے سے کہنا ہے کہ ’اس طریقہ کار سے لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں بھی لایا جائے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں پچھلے پانچ سالوں میں دو لاکھ 69 ہزار نو سو ایک استعمال شدہ گاڑیاں منگوائی گئی ہیں۔
موجودہ آٹو پالیسی سال 2017 میں بھی جاری کی گئی تھی لیکن اُس وقت یہ فیصلہ سندھ ہائی کورٹ میں جاپانی گاڑیوں کے ڈیلرز کے حق میں چیلنج کیا گیا تھا، لہذا حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔
حکومت کی جانب سے دوبارہ آٹو پالیسی میں ترمیم کے فیصلے پر اب الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس کے پیچھے ملک کی مقامی آٹو انڈسٹریز کا ہاتھ ہے، جو جاپان اور دوسرے ملکوں کی گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے خسارے میں جارہی تھیں، لہذا انہوں نے حکومت میں بااثر افراد کو گاڑیاں تحفے میں دیں تاکہ ان کی گزارشات کو جیسے بھی ممکن ہو مان لیا جائے۔