مکہ مکرمہ میں حج کے دن حجاج نے مختلف موبائل کمپنیوں کا 3000 ٹیرابائٹس ڈیٹا استعمال کیا ہے۔
سعودی عرب کے ٹیلی کام ریگولیٹر کمیونیکیشن اینڈ ٹیکنالوجی کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ڈیٹا تقریبا 13 لاکھ گھنٹے ایچ ڈی کوالٹی ویڈیوز دیکھنے کے برابر تھا۔
سمارٹ فونز اور سستے انٹرنیٹ پیکجز سے لیس عازمین حج نے طواف کعبہ سے لے کر میدان عرفات اور جمرات تک کے ویڈیوز اپنے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے لائیو نشر کیے۔ بعض نے اپنے اہل خانہ یا والدین کو گھر بیٹھے کعبہ اللہ کی سیر کروائی۔
کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق فی صارف روزانہ 805 میگابائیٹس ڈیٹا استعمال کیا گیا۔ یہ مقدار دنیا میں انٹرنیٹ ڈیٹا کے اوسط استعمال کی 200 میگا بائیٹ مقدار سے تین گنا زیادہ تھی۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ استعمال میں آنے والی ایپس میں یوٹیوب، ٹک ٹاک، سنیپ چیٹ، فیس بک اور انسٹاگرام رہیں۔
پاکستان سے حج کے لیے آئے فیاض محمود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے 30 جون کو آمد کے بعد 115 ریال (تقریبا چھ ہزار چار سو پاکستانی روپے) کا موبائل پیکج لیا تھا۔
’ہم پانچ افراد کا گروپ تھا اس طرح ہم نے 575 ریال کے پیکج لیے۔ جو ہمارے حج کے دوران کافی اچھا پیکیج رہا۔ ہم نے انٹرنیٹ بھی کھل کر استعمال کیا اور کالز بھی کیں۔‘
اگرچہ واٹس ایپ اور دیگر چیٹ ایپس کے عام ہونے سے تاثر یہ ہے کہ ٹیلیفون کالز کم ہوئی ہوں گی لیکن ایسا نہیں تھا۔ اس ڈیٹا کے استعمال کے علاوہ 14 لاکھ سے زائد انٹرنیشنل فون کالز بھی کی گئیں۔
ٹیکنالوجی کا فائدہ دیگر صورتوں میں بھی رہا۔ مسجد الحرام میں اب نمازیوں کو قرآن شریف کے لیے کہیں نہیں جانا پڑے گا اور روبوٹس اس سال خانہ کعبہ میں متعارف کروائے گئے ہیں جو نمازیوں تک اسے پہنچا دیں گے۔
ان ربورٹس کے بارے میں سعودی اہلکار بدر بن عبداللہ الفریح نے کہا کہ روبوٹس، جن کا وزن 59 کلوگرام ہے ہجوم میں سے باآسانی اپنا راستہ تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ وہ قابل کنٹرول رفتار اور 10 کلوگرام تک وزن لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سعودی حکام نے اس مرتبہ ہجوم پر نظر رکھنے اور کسی بھگڈر سے بچنے کی خاطر بھی ٹیکنالوجی کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن 2030 منصوبے میں ٹیکنالوجی کے بھرپور استعمال کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ جدید سائنس کی مدد سے سعودی عرب کا 2030 تک 50 لاکھ عازمین حج کو خوش آمدید کہنے کا ارادہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سال یہ تعداد 10 لاکھ تھی اور کرونا سے قبل یہ 25 لاکھ کی حد کو چھو رہی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ریاض حاجیوں کی تعداد کو اگلے آٹھ سال میں دو گنا کرنا چاہتا ہے۔
سعودی عرب پہلے ہی دنیا میں ٹیکنالوجی پر سب سے زیادہ خرچ کر رہا ہے جو کل تکنیکی اخراجات کا 21.7 فیصد ہے۔ سعودی حکام کو یقین ہے کہ سال 2025 تک اس کے ٹیکنالوجی پر مجموعی اخراجات 93 ارب ریال ($24.7 ارب) ہو جائیں گے۔
سعودی حکام نے گذشتہ برس پانچ ہزار حجاج میں سمارٹ بریسلیٹس تقسیم کیے تھے جو ان کی صحت جس میں بلڈپریشر، خون میں آکسیجن کی مقدار اور حرکت قلب شامل ہے پر نظر رکھتے تھے۔ یہ ٹیکنالوجی حجاج کو ان کے صحت کے بارے میں مسلسل آگاہ رکھتی تھی۔
اس ٹیکنالوجی کے ذریعے اب وہ ماہرین صحت کے علاوہ دیگر سہولیات کی فراہمی میں مدد لے سکتے ہیں۔ اس سے شور، ماحولیاتی آلودگی، حادثے اور جرائم سے متعلق فوری معلومات اکٹھی کی جاسکیں گی۔ اس کے لیے ای سمز پر بھی غور ہو رہا ہے۔
رواں سال سعودی حکام نے ٹیکنالوجی حجاج کے ایک جگہ جمع ہونے اور ہجوم کے بے قابو ہونے جیسی صورت حال سے بچنے کے لیے بھی استعمال کی ہے۔
انگریزی اخبار عرب نیوز میں محمد مختار لکتھے ہیں کہ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی سے حکام آب زم زم کی تقسیم کے نظام کو بھی استعمال کی بنیاد پر استوار کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ویزے اور پرمٹ کے اجرا کو بھی بڑی حد تک پہلے ہی آن لائن کر دیا گیا ہے۔
سعودی عرب پہلے ہی ٹیکنالوجی میں کافی پیشرفت کر رہا ہے۔ اینڈیورانسائٹ کی اپریل 2022 میں شائع شدہ ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام یا کاروبار شروع کرنے والی خواتین کی شرح مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف گیا کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں سعودی خواتین کی اس شرکت کی شرح یورپی اوسط سے زیادہ ہے۔
مملکت کی وزارت مواصلات و اطلاعات کے مطابق 2021 کی تیسری سہ ماہی میں ٹیک سیکٹر میں خواتین کی شرکت کی شرح 28 فی صد رہی جو یورپ کی اوسط شرح 17.5 فی صد سے زیادہ ہے۔
سعودی عرب کا ایک اور ہدف 2030 تک ہر سو شہریوں میں سے کم سے کم ایک کمپیوٹر پروگرامر کو تیار کرنا ہے۔
ٹیکنالوجی کے زیادہ استعمال سے ناصرف بڑی تعداد میں حجاج کے انتظامات کرنا آسان ہوگا بلکہ سعودی حکام امید کرتے ہیں کہ اس سے حج کی عبادت مزید محفوظ اور سہل ہوگی۔