لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ لاہور کے علاقے باغبانپورہ میں عید کے دوسرے روز ‘کیمروں کے تنازعے‘ پر قتل کی جانے والی خاتون کے قتل میں ملوث تین ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ چوتھے ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
لاہور کے تھانہ باغبانپورہ میں درج مقدمے کے مطابق ’قتل کا ارتکاب کرنے والا منشیات فروش اپنی دوست سے ملنے اس کے گھر آتا تھا، جس کے پڑوس میں واقع ایک گھر پر سی سی ٹی وی کیمرے لگے تھے۔
’منشیات فروش نے گھر والوں کو کیمرے اتارنے کے لیے دھمکیاں دیں لیکن جب ان کی طرف سے انکار کیا گیا تو منشیات فروشوں نے عید کے دوسرے دن فائرنگ کر کے اس مکان میں رہنے والی خاتون کو قتل کر دیا اور فرار ہو گئے۔‘
پولیس حکام کے مطابق ’منشیات کی فروخت سے روکنے پر یہ واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ کیمروں کی وجہ سے تلخ کلامی ہوئی تھی۔‘
پولیس کے مطابق ’مقتول خاتون کا بیٹا بھی ملزم کا دوست تھا، ملزم فرار ہیں، جلد انہیں گرفتارکرلیا جائے گا۔‘
واقعہ کیسے پیش آیا؟
باغبانپورہ کے رہائشی اور مقتول خاتون کے بیٹے آصف خان کے مطابق وہ عید کے دوسرے دن گوشت تقسیم کر رہے تھے کہ ’مغلپورہ کے رہائشی اکرم خان اور فخر شاہ موٹر سائیکل پر آئے اور اسلحے سے ہمارے گھر والوں کو زدوکوب کرنا شروع کردیا۔ والدہ اور محلہ دار شور سن کر آئے تو اکرم خان نے گولی چلا دی۔‘
فائرنگ کے نتیجے میں ان کی والدہ روبینہ سرور کے ماتھے پر گولی لگی جس سے وہ ہلاک ہو گئیں۔
ایف آئی آر میں آصف خان نے موقف اپنایا کہ ’جھگڑے کی وجہ یہ تھی کہ اکرم خان منشیات فروشی کرتا تھا اور ہمارے گھر کے سامنے سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے۔ ملزم کو خوف تھا کہ اس کی حرکات اس کیمرے میں ریکارڈ ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کا اسرار تھا کہ یہ کیمرے ہٹائیں۔ ہم نے انکار کیا تو جھگڑے کے دوران والدہ کو قتل کر کے دونوں ملزم فرار ہوگئے۔‘
تھانہ باغبان پورہ کے انچارچ محمد ذکا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اکرم خان منشیات فروش ضرور تھا لیکن وہ یہاں اپنی خاتون دوست سے ملنے آتا تھا جو قریبی گھر میں رہتی تھیں۔ مدعی مقدمہ آصف خان سے بھی ملزم کی دوستی تھی۔‘
’پولیس نے ایک بار اکرم خان جو مغلپورہ کا منشیات فروش تھا، اسے پکڑنے کی کوشش کی تو وہ آصف خان اور مقتولہ روبینہ کے گھر گھس گیا۔ انہوں نے پولیس کو اسے گرفتار نہیں کرنے دیا بلکہ مقتولہ پولیس کی گاڑی کے سامنے کھڑی ہوکر گالیاں دینے لگیں کیونکہ ان کا ملزمان کے گھر بھی آنا جانا تھا۔‘
ایس ایچ او کے مطابق ’اکرم خان انہیں کیمرے میں آمدورفت ریکارڈ کرنے سے روکتا تھا اور اسی وجہ سے ان کے درمیان جھگڑا تھا۔ وقوعے کے دن وہ آئے اور انہوں نے کیمرے توڑنے کے لیے فائر کیا لیکن گولی خاتون کو جا لگی اور وہ ہلاک ہو گئیں۔‘
پولیس ایس ایچ او کے مطابق انہوں نے آصف خان کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیا ہے، ملزموں کی گرفتار جلد متوقع ہے اور اقدام قتل کی دفعات کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
تھانہ باغبان پورہ کے انچارچ محمد ذکا کے بقول ’مدعی مقدمہ اور ان کی بہن سوشل میڈیا پر واقعے کو غلط رنگ دے کر پیش کر رہے ہیں تاکہ پولیس پر دباؤ ڈالا جائے، جبکہ حقائق مختلف ہیں۔ کیونکہ قتل ہوا ہے لہذا ہم اپنی کارروائی قانون کے مطابق کر رہے ہیں۔ مگر یہ رنگ دینا کہ منشیات فروش اپنے دھندے کی ریکارڈنگ کے باعث کیمرے بند کرانا چاہتا تھا یہ غلط ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے بھی یہ معاملہ سامنے آیا تھا کہ آصف خان اپنے آس پاس آنے والوں کی ریکارڈنگ کرتا ہے اور ان کیمروں کا مقصد سکیورٹی نہیں بلکہ آنے جانے والوں پر نظر رکھنا اور انہیں دباؤ میں لانا ہوتا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس افسر کے مطابق ’ان کے پاس تمام واقعات کی ریکارڈنگ موجود ہے ملزموں کو گرفتار کرنے کے بعد پورے معاملے سے پردہ اٹھائیں گے اور حقائق سامنے لائیں گے کہ اصل وجہ لڑائی کی کیا تھی۔‘
مدعی مقدمہ آصف خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایس ایچ او ذکا ہمارے ساتھ بالکل تعاون نہیں کر رہے۔ ہم نے پہلے بھی شکایت کی تھی کہ اکرم خان جو منشیات فروش ہے وہ محلہ میں آتا ہے۔ ہوائی فائرنگ کرتا ہے ہمارے کیمروں میں ریکارڈنگ موجود ہے۔ وہ جن کے گھر آتے تھے انہیں بھی درخواست کی کہ یہ اوباش ہیں انہیں یہاں آنے سے روکیں لیکن وہ بھی ہمارے مخالف ہوگئے۔
’ہماری والدہ قتل ہوگئیں، پولیس ملزم پکڑنے کی بجائے ایسی باتیں کر رہی ہے۔ ہمارا رینٹ اے کار کا کاروبار ہے، گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں اس لیے کیمرے لگائے گئے۔ انہوں نے کیمرے ہٹانے کی ضد کی اور وہاں آنے سے روکنے پر دشمنی پال لی۔ پہلے بھی ملزم گولی مارنے کی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری والدہ کے قاتلوں کو گرفتار کر کے انصاف دیا جائے۔‘
آصف کے بقول ان کی ملزم سے کبھی دوستی رہی نہ ہی اسے کبھی گھر آنے دیا۔