ضحواہ نورے فاطمہ دو صحافیوں کی بیٹی ہیں۔ 12 سال کی عمر میں ہی ضحواہ نے اپنا ایک ایسا پلٹ فارم متعارف کروایا ہے جس میں وہ بچوں کے لیے صحافت کریں گی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ضحواہ نے بتایا کہ انہیں صحافت کا شوق کچھ اس طرح ہوا کہ انہوں نے اپنی چھٹی جماعت کے لیے سکول کا ایک پراجیکٹ بنایا جس میں انہوں نے ہونانی تہذیب پر خود سے ایک ڈاکیومینٹری بنائی۔
اس کے بعد انہوں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ کونسی عمر کا بچہ صحافت کر سکتا ہے؟ لیکن اس سوال پر انہیں کچھ زیادہ معلومات نہ مل سکیں۔
ضحواہ کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر آپ 18 سال سے کم ہیں تو آپ اپنا کاروبار نہیں کر سکتے۔
وہ بتاتی ہیں: ’اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ پاکستان میں ایسا کوئی بچہ نہیں جو کہ ایک صحافی آنٹرپرینیور ہو۔ میں اپنا کچھ شروع کرنا چاہتی تھی اور اس طرح میرا صحافتی سفر شروع ہوا۔‘
ضحوا نے اپنی والدہ کے ساتھ مل کر ایک پراجیکٹ تخلیق دیا جس کا نام انہوں نے ’جرنلزم فار کڈز‘ رکھا۔ ان کے پیج سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یوٹیوب، فیس بک اور انسٹا گرام پر بھی موجود ہیں اور انہوں نے یہ پراجیکٹ میڈیا پر کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے ایک ورکشاپ میں بھی پیش کیا، جہاں 170 صحافیوں نے اپنے مختلف آئیڈیاز پیش کیے۔
ان میں سے 26 شارٹ لسٹ ہوئے اور پھر ان میں سے پانچ اور ان پانچ میں سے ضحواہ کا پراجیکٹ اول پوزیشن لے گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کہتی ہیں: ’مجھے پاکستان کی کم عمر ترین صحافی کا اعزاز دیا گیا ہے اور مجھے انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس (آئی سی ایف جے) کی جانب سے بھی سرٹفیکٹ ملا جو مجھے واشنگٹن کے دو میڈیا پروفیشنلز نے دیا۔‘
ضحواہ نے بتایا کہ ورکشاپ کے دوران وہاں موجود ججز نے ان کے اس پراجیکٹ کو مزید بہتر بنانے کے مشورے دیے اور انہوں نے باقائدہ اس کا ایک پورا بزنس پلان ان کے سامنے پیش کیا جس میں صحافت کرنے کی ویلیوز اور سرخ لکیریں بھی بتائی گئیں اور ان کے اس پراجیکٹ کو مونیٹائز کرنے کا طریقہ بھی۔
ضحواہ کہتی ہیں کہ اس پراجیکٹ کو شروع کرنے سے پہلے انہوں نے اپنے سکول کے بچوں کا انٹرویو کیا اور پوچھا کہ انہیں میڈیا اور صحافت کے بارے میں کیا معلوم ہے؟
’اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ انہیں خبروں میں کو دلچسپی نہیں ہے۔ میں نے پھر سوچا کہ کوئی ایسا پلیٹ فارم ہو جہاں بچے اپنے مسائل بتائیں۔ جیسے سکولوں میں آج کل bullying (تنگ کرنا) بہت زیادہ ہو رہی ہے۔ تو ایک ایسا پلیٹ فارم جہاں بچے اپنے مسئلے بھی بتائیں ان کے حل بھی اور اپنی کامیابیاں بھی۔
’اسی لیے میں نے ہمارے پلیٹ فارم کا سوچا جو کہ ’جنرلزم فار کڈز‘ ہے یعنی صحافت بچوں کے لیے بچوں کے ذریعے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت ایسی چیزوں پر فوکس کر رہے ہیں جیسے کتابوں کے رویوز، فوڈ رویوز اور جو بچے سپورٹس میں بہت اچھے ہیں۔ سو ہم ان چھوٹے بچوں کو دیکھ رہے ہیں جن کی کامیابیاں بڑی ہیں۔
ضحواہ نے بتایا کہ ان کی والدہ ان کے ساتھ اس پراجیکٹ کی شریک بانی ہیں جبکہ ان کا ایک ایڈیٹوریل بورڈ بھی ہے جس میں کچھ سینیئر صحافی بھی شامل ہیں۔ باقی ضحواہ اپنے والد اور والدہ دونوں سے مدد لیتی رہتی ہیں۔
ضحواہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس پراجیکٹ میں اپنے سکول کے کچھ ساتھیوں کو بھی شامل کیا ہے جبکہ دوسرے بچے بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ وہ اپنی کوئی چھوٹی چھوٹی ویڈیوز بنا کر بھیجیں گے۔
انہوں نے مثال دی کہ ایک بچی نے بہت دلچسپی دکھائی کیونکہ وہ جانوروں کے حوالے سے رپوٹس بنانا چاہتی ہیں۔ تو یوں ضحواہ کو بچوں سے ای میلز آتی رہتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ بچوں کا بھیجا ہوا مواد ایڈیٹوریل بورڈ کی اجازت کے بعد چلایا جائے گا تاکہ ہمیں یہ تصدیق ہو جائے کہ وہ مصدقہ ہے اور سب سے اہم یہ کہ ان بچوں کا مواد چلانے سے پہلے ان کے والدین سے اجازت نامہ لیا جائے گا تاکہ والدین کو بھی معلوم ہو کہ ان کے بچے کیا بنا رہے ہیں اور وہ ہمیں کیا بھیج رہے ہیں۔
ضحواہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے اس پراجیکٹ کے ذریعے بچوں کو میڈیا ایتھکس سکھانے کا بھی سوچ رہے ہیں تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ صحافت کیا ہے اور یہ کیسے کی جاتی ہے۔
ضحواہ اب تک کچھ مشہور شخصیات کے انٹرویوز بھی کر چکی ہیں جن میں گوگل کے ریجنل ہیڈ فرحان قریشی، بیکن ہاؤس کے سی ای او قاسم قصوری شامل ہیں جبکہ حال ہی میں انہوں نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے قائم مقام صدر کو بھی انٹرویو کیا۔
وہ بتاتی ہیں: ’انہیں انٹرویو کرتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ 18 سال سے کم عمر کوئی بچہ اپنے نام سے کوئی کاروبار نہیں کر سکتا۔ اس لیے اب میں اس مہم پر بھی کام کر رہی ہوں کہ بچوں کو ان کے آنٹرپرینوریل حقوق مل سکیں۔‘