کراچی سے لاپتہ ہونے والی نوعمر لڑکی دعا زہرہ اور ان کے مبینہ شوہر ظہیر کو عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے جہاں انہوں نے اپنے والدین سے ملنے سے انکار کر دیا۔
سندھ ہائی کورٹ میں پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران پولیس نے دعا زہرہ کو مبینہ شوہر سمیت عدالت میں پیش کیا۔
اس موقع پر دعا زہرہ کے والدین کی جانب سے اپنی بیٹی سے ملنے کی خواہیش کا اظہار کیا گیا مگر دعا زہرہ نے انکار کر دیا۔
دعا زہرہ کے انکار پر عدالت نے انہیں دارالامان بھیجنے کا حکم دے دیا۔
جب دعا زہرہ کو ان کے مبینہ شوہر کے ہمراہ عدالت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے پوری طرح سے اپنے چہرے کو چھپا رکھا تھا۔
دعا زہرہ اور ان کے مبینہ شوہر ظہیر کو انتہائی سخت سکیورٹی میں عدالت پیش کیا گیا۔ اس حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ دعا لاہور سے کراچی منتقل کر کے خواتین پولیس کے حوالے کیا گیا جبکہ ظہیر کو اے وی سی سی کی حفاظتی تحویل میں دیا گیا۔
سماعت کے دوران اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے استدعا کی کہ دعا زہرہ کو پیش کر کے بیان ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں اور عدالت انہیں آج ہی پیش کرنے کی اجازت دے۔
جس پر عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے کیس پیر کو ہی سماعت کے لیے منظور کر لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ دعا زہرہ اور ان کے مبینہ شوہر کو رواں ماہ پانچ جون کو پنجاب کے ضلع بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں بہاولنگر سے حراست میں لیا گیا تھا۔
اس حوالے سے دعا زہرہ کے والد مہدی علی کاظمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’ابھی تک تصدیق نہیں ہوئی ہے لیکن عدالت میں پیشی کے لیے امید یہی ہے کہ دعا زہرہ کو کل (چھ جون) کراچی منتقل کر دیا جائے گا، اگر انہیں کسی تکنیکی وجہ سے پنجاب میں نہ رکنا پڑ گیا۔‘
دعا زہرہ کیس کا پس منظر
دعا زہرہ نامی لڑکی کراچی کے علاقے الفلاح گولڈن ٹاؤن سے 16 اپریل کو لاپتہ ہوئی تھی اور اگلے روز سوشل میڈیا سے معلوم ہوا کہ اس کا نکاح 17 اپریل کو لاہور کے رہائشی نوجوان ظہیر احمد سے ہوچکا ہے۔
نکاح نامے میں اس کی عمر 18 سال لکھی گئی اور حق مہر 50 ہزار روپے رکھا گیا۔ شادی کے موقع پر دعا کو مہر کی مد میں پانچ ہزار روپے دیے گئے۔
یہ معلومات کراچی پولیس سے رابطے پر لاہور پولیس نے انہیں خاوند سمیت حراست میں لینے کے بعد لاہور کی عدالت میں پیش کیں۔