بھارتی کی ریاست اڈیشہ میں مہا ندی کے کنارے پر واقع سمبل پور میں بننے والے ساڑھی جو آج بھی سیاسی اور فلمی شخصیات پسند کرتی ہیں۔
نئی دہلی سے 1365 کلومیڑ مشرق کی جانب ریاست اڈیشہ کی پہچان یہاں کے علاقے سمبل پور میں بننے والی ساڑھیاں ہیں۔
عرف عام میں بھارت کی بنارسی ساڑھی مشہور ہے لیکن سمبل پوری ساڑھی کی شہرت بھی کچھ کم نہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ سمبل پور ساڑھی کا چرچا عام نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے مینا کماری، اندرا گاندھی اور ہیما مالینی سب بڑے شوق سے سمبل پوری ساڑھیاں زیب تن کرتی رہی ہیں۔ اس طرح سمبل پوری بنائی کے شوقینوں کا حلقہ ارادت فلم انڈسٹری، سیاسی گلیاروں اور مذہبی رہنماؤں تک پھیلا ہوا ہے۔
انڈیپنڈینٹ اردو نے بھارت کی درالحکومت دہلی سے تقریبا 1,365 کیلومیٹر کا فاصلہ طے کر اڈیشہ کے مغربی خطہ میں مہا ندی کے کنارے پر واقع سمبل پور پہنچ کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر سمبل پوری ساڑھی کا ایسا کون سا جادو ہے جس نے آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اس کا برانڈ ایمبیسڈر بننے پر مجبور کردیا۔
اندرا گاندھی نہ صرف سمبل پوری ساڑھیاں پہنتی تھی بلکہ اس لباس پر تمکنت بھی ظاہر کرتی تھیں۔ 80 اور 90 کی دہائی میں اسی فیشن کو دیکھ کر دور درشن کی خاتون اینکروں نے بھی سمبل پوری ساڑھیاں پہن کر اسٹوڈیو میں آنا شروع کردیا تھا۔
سمبل پوری بنائی کی انفرادیت اور جازبیت ہی اس کی پہچان ہے۔ ساڑھی کی دیگر صنعتوں کی طرح سمبل پوری ساڑھی صنعت نے بھی عروج و زوال دیکھا مگر گزرتے وقت اور بدلتے فیشن نے سمبل پوری طرز بنائی نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔ مہنگی قیمتوں کے باوجود سمبل پوری ساڑھی اور کپڑے بازار میں سرخرو ہیں۔
سمبل پور کے ہینڈ لوم مارکیٹ میں ایمپوریم کے مالک سنجے مہر بتاتے ہیں کہ ’سمبل پوری ساڑھی یا کپڑا یہ مکمل ہینڈ لوم ورک ہوتا ہے۔ ہاتھ کے ذریعہ بنائی ہوتی ہے۔ اسے بندھا یا اکت کہتے ہیں جس میں پہلے دھاگے میں کام ہوتا ہے۔ ٹائی اینڈ ڈائی بھی پہلے دھاگے میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کی بنائی ہوتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ’ایک ساڑھی، عام استعمال کے لیے بھی ہو، تو اس میں کم سے کم پانچ دن لگ جاتے ہیں۔‘
سنجے کے مطابق سمبل پوری ساڑھی کے لیے بڑی مشینوں کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ لوگ اپنے گھروں میں ہی یہ کام کرتے ہیں۔ ’ہاتھوں کی بنائی کی وجہ سے سمبل پوری ساڑھی کا رنگ، نکھار اور زیب دوگنا ہوجاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے لوگ اس کو بڑی تمکنت سے پہنتے ہیں۔‘
انہوں نے انڈیپنڈینٹ اردو سے خصوصی گفتگو کے دوران بتایا کہ پرانے زمانے میں سمبل پوری ساڑھی پر کچھ خاص ڈیزائن ہوتے تھے جس میں دیوتاؤں کی تصویر، ہاتھی اور شیر کی تصویریں یا باکس ہوتے تھے، مگر اب ڈیزائن متنوع ہوگئے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس طرز کا کام بھارت میں صرف دو ہی جگہ ہوتا ہے۔ ایک سمبل پور اور دوسرا جنوبی ہند میں پچم پلی۔ لیکن پچم پلی ساڑھی میں وہ شفافیت نہیں آپاتی جو سمبل پوری میں ہوتی ہے۔‘
سمبل پور سے 50 کیلو میٹر برگڑ میں ساڑھیوں کے کاروبار سے منسلک رام کرشن مہر کو بنائی میں قومی ایوارڈ مل چکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’سمبل پوری ساڑھی ایک خاص طرح کی بنائی کو کہتے ہیں۔ اس میں بڑی باریکی ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ بھی الگ ہے۔ اسے بنانے کا انداز تھوڑا ہٹ کر ہے۔ اسی انفرادیت کو سمبل پوری بنائی کہتے ہیں۔‘
رام کرشن کے مطابق ’بڑے بڑے لوگ جیسے فلمی شخصیات، سیاسی رہنما، کرکٹ اسٹارز، دیگر شعبوں کے بڑے لوگ سب سمبل پوری ساڑھی پسند کرتے ہیں۔ جیسے بھارت کے سب سے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو سمبل پوری ساڑھی کو سراہ چکے ہیں۔ بعد میں اندرا گاندھی جی نے سمبل پوری ساڑھی پہنی۔‘
انہوں نے بتایا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سمبل پوری کپڑا بہت پسند کرتے ہیں۔
’اس کے علاوہ فلم انڈسٹری میں ثریا، مینا کماری، اسمیتا پاٹل، شبانہ اعظمی، مادھوری دکشت، جیا بچن اور کئی ایسی شخصیات ہیں جو سمبل پوری ساڑھی پسند کرتے ہیں۔ ٹی وی اور سنیما میں یہ کپڑا دکھ جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رام کرشن مہر ایک بڑے دوکاندار ہیں اور گاؤں کے بنکروں (بنائی کا کام کرنے والوں) سے ساڑھیاں خریدتے ہیں۔
ان کا دعوی ہے کہ سمبل پوری ساڑھی کے بنکر خوشحال ہیں۔ ’پہلے کے مقابلہ میں اچھی زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن تاہم اتنا نہیں بدلا ہے ان کے لئے جتنا زمانہ بدل گیا ہے۔ سمبل پوری ساڑھی کی قیمت کپڑے کی بنائی اور اس کی بھرائی پر منحصر ہے۔ سمبل پوری ساڑھی کی کم سے کم قیمت 3 ہزار روپے ہے۔ اس سے اچھی ساڑھی لینی ہے تو 5 ہزار سے 10 ہزار تک۔ اگر ریشم میں لینا ہے تو پھر قیمت 15 ہزار سے اوپر جائے گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کچھ خاص ساڑھیاں جس میں بنکر مہینوں لگاتے ہیں، جو کبھی سال بھر میں تیار ہوتی ہیں۔ اس کی قیمت لاکھوں تک چلی جاتی ہے۔‘
بالوڈگرا میں گھر میں ساڑھی بنانے والے وید ویاس مہر کچھ الگ کہانی سناتے ہیں۔
ان کے مطابق ’یہ کام کرکے فائدہ ہے۔ لیکن صرف کھانے پینے تک۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مستقبل روشن نہیں ہے۔ ہمارے یہاں ساڑھی دو یا تین ہزار کی بنتی ہے۔ ہمارے گھر کا خرچہ چل جاتا ہے۔ میڈیکل وغیرہ۔ ہمارا پورا خاندان اس کام میں لگتا ہے۔ اکیلا کوئی نہیں کر سکتا۔‘