کاغان اور کشمیر کی سیر جس کے دوران انڈپینڈنٹ اردو کی مونا خان آپ کو اپنے ساتھ لے کر جائیں گی نیلگوں جھیلوں، شاداب وادیوں، سرسبز چراگاہوں، درجنوں دودھیا آبشاروں، اور گلیشیئروں کے 72 کلومیٹر طویل پہاڑی سفر پر۔
ناران سے کشمیر کی جانب ٹریک کرتے ہماری اگلی منزل سرال پاس اور سرال جھیل تھی۔
دودی پت سر جھیل کے بعد جب سرال کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں تو دودی پت سر خیبر پختونخوا کی آخری جھیل جبکہ سرال پاس سے کشمیر کے پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
سرال پاس ہماری پوری مہم کا سب سے اونچا مقام تھا جس کی اونچائی سطح سمندر سے 4200 میٹرز تھی یعنی دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کی تقریباً آدھی چڑھائی۔
سرال پاس پر پہنچ کر لگا کہ کچھ حاصل کر لیا ہے۔ ایک کامیابی کا احساس ہوا کہ کہاں مارگلہ کے پہاڑ اور کہاں اب میں اس پہاڑ کو عبور کر آئی ہوں۔ سچ ہے انسان اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلے تو بہت کچھ کر سکتا ہے۔
سرال پاس سے دور تین چار قدرے چوڑے پہاڑوں کے اُس پار سرال جھیل نظر آتی ہے لیکن وہاں پہنچنے میں چار پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں، اگر راستے میں سانس لینے یا پانی پینے کا وقفہ کیا جائے۔
دودی پت سر سے سرال پاس تک پہنچنے میں تین گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد پہاڑ کی اترائی بھی ایک دوسرا مرحلہ ہے۔ جتنی احتیاط پہاڑ چڑھتے وقت کی جاتی ہے اس سے دوگنی احتیاط پہاڑ اترتے وقت کی جاتی ہے کہ پاؤں نہ پھسلے۔
سرال پاس چونکہ کافی اونچائی پر واقع ہے تو وہاں بارش ہونا معمول ہے، اور بارش بھی باریک اولوں کی صورت میں ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرال پاس سے چار پانچ گھنٹوں کے ٹریک میں دو تین اور پہاڑوں کی چڑھائیاں اترایاں اور کچھ ندیاں عبور کرنی ہوتی ہیں۔ راستے میں آپ کو بکروال اور اُن کی بھیڑیں بھی نظر آتی رہتی ہیں۔
یہاں ایک قابل ذکر بات دیکھی جب ہم خیبر پختونخوا کی حدود میں تھے۔ وہاں بکروالوں کے بچے ہر سیاح سے پیسے اور ٹافیاں مانگتے ہیں جبکہ کشمیر کی حدود میں واقع بکروالوں کے بچے آپ سے مانگتے نہیں بلکہ جب آپ خود اُن کو ٹافیاں دیں تو وہ بھی نہیں لیتے۔ اُن کا صرف ایک مطالبہ ہوتا ہے کہ اگر کچھ دوائیاں ہیں تو وہ دے دیں جس کے لیے وہ کہتے ہیں کہ گھر میں کوئی بیمار ہے پیناڈول چاہیے۔
مقامی گائیڈ کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ دشوار گزار علاقے میں رہتے جہاں ڈاکٹر تو دور کوئی ڈسپنسری بھی نہیں ہے۔ اس لیے یہ چاہتے ہیں کہ ضروری جان بچانے والی دوائیاں سیاحوں سے لے کر گھر میں رکھ لیں، کیونکہ جو بھی سیاح جاتے ہیں وہ ضروری ادویات تو لے کر جاتے ہیں۔
مجھے چونکہ پہلے اس بات کا تجربہ تھا اس لیے پیناڈول اضافی لے کر گئی تھی کہ اُدھر تقسیم کر آؤں گی۔
جھیل پر پہنچنے کے بعد وہاں پورٹرز نے کیمپ لگائے۔ چونکہ یہاں بکراوالوں کا باروچی خانہ نہیں ہوتا اس لیے ہم پکا ہوا ڈبے میں بند کھانا لے کر گئے تھے جس کو گرم کر کے کھایا تھا۔ سیلنڈر جس کے اوپر چولہا لگا ہوتا ہے اس کو استعمال کرتے ہوئے نوڈلز اور چائے کا اہتمام بھی ہو گیا۔
ہمارے علاوہ وہاں 50 افراد پر مشتمل ٹریکنگ گروپ بھی آیا ہوا تھا۔
انہوں نے اپنا سفر کشمیر رتی گلی سے شروع کیا تھا اور بیسل پر اختتام کرنا تھا۔ دو بڑے گروپ ہونے کی وجہ سے جھیل پر کافی رونق بھی تھی اور قدرے مخفوظ بھی محسوس ہوا۔
سرال جھیل، جو اس پورے ٹریک پر سب سے بڑی جھیل ہے، کی مرکزی جھیل کے علاوہ دو عدد چھوٹی جھیلیں بھی ساتھ ہیں جنہیں سرال ون اور سرال ٹو کہا جاتا ہے تو تکنکی طور پر ہمیں یہاں تین جھیلیں مل گئی۔