وادی ناران سے کشمیر تک پھیلے پہاڑوں کے سلسلے میں بہت سے چھوٹی بڑی جھیلیں ہیں جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔
یہ ٹریک اور جھیلیں اس لیے بھی خوبصورت ہیں کہ یہاں پر گاڑی یا جیپ کا راستہ نہیں بلکہ پیدل کئی کئی گھنٹے ٹریک کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے صرف سنجیدہ طبیعیت کے لوگ ہی یہاں پہنچتے ہیں۔
فیس بُک پر میں نے ناران سے کشمیر کے ٹریک کا پلان دیکھا تو سوچا یہاں جانا چاہیے۔ رابعہ مقبول اور سعدیہ مقبول جنہوں نے اس پروگرام کو بنایا تھا اُن سے بات کی تو رابعہ نے ایک بار مجھے خبردار کیا کہ یہ ٹریک کافی لمبا ہے چڑھائیاں بھی بہت ہیں تو سوچ سمجھ کر آؤں کیونکہ یہ آسان نہیں ہے۔
میں نے چونکہ دل میں ٹھان رکھی تھی اپنی برداشت و ہمت کو آزمانے کی اس لیے ارادہ پکا رکھا۔ ناران کی ایک جھیل اور کشمیر کی سات آٹھ جھیلیں اس ٹریک کا حصہ تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لمبے ٹریک پر جانے کے لیے آپ کو کیا چاہیے؟
چونکہ گذشتہ برس دودی پت سر جھیل کا ٹریک کر رکھا تھا اس لیے ذہن میں تھا کہ ٹریک کیسا ہے اور کیا انتظامات کرنے ہوں گے۔
- ٹریکنگ چھڑیاں بہت ضروری ہیں کیونکہ ہاتھوں میں ٹریکنگ سٹک ایک اضافی ٹانگ سا کام کرتی ہے۔ اگر دو چھڑیاں ہوں تو مزید آسانی ہوتی ہے۔
- جوتوں کا انتخاب لمبے ٹریک سے پہلے بہت تکنیکی ہے۔ اگر آپ کے جوتے اچھے نہیں ہیں تو آپ اچھا ٹریک نہیں کر سکتے۔ ایک بار خرچہ کریں اور کسی اچھی کمپنی کے ٹریکنگ کے خصوصی جوتے جو پھسلتے نہیں ہیں وہ لینے چاہیے۔
- کاٹن کی جرابیں تاکہ گیلی ہونے کی صورت میں جلدی سوکھ جائیں۔
- ایک چھوٹا بیگ جس میں آپ نے میوہ جات، او آر ایس، سن بلاک، کچھ ادویات اور پانی کی بوتل رکھنی ہے۔
- ایک بڑا بیگ جس میں ٹریکنگ کے دنوں کی مناسبت سے ضروری سامان اور کپڑے رکھنے ہیں۔
- ندیاں پار کرنے کے لیے ٹریکنگ سینڈل رکھ لیں تاکہ آپ کے بند جوتے گیلے ہونے سے بچ جائیں۔ کیونکہ اگر جوتے اتار کر ندی پار کرنے کی کوشش کی جائے گی تو گلیشئر کا برفیلا پانی اور کائی زدہ پتھروں سے آپ کا پاؤں پھسل بھی سکتا ہے جو چوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔
- گلیشئر سے گزرنے کے لیے جوتے کے نیچے لگانے کے لیے لوہے کی چین جسے کرمپان کہتے ہیں وہ خرید لی جائے تو بہتر ہے، پھسلن سے بچ جائیں گے، ورنہ اپنی ٹریکنگ سٹک کی مدد سے پاؤں جما جما کر گلیشئر پر چڑھنا ہو گا۔
- چونکہ سطح سمندر سے بلند مقامات پر موسم گرمیوں میں بھی سرد ہوتا ہے اس لیے رات کے لیے گرم جیکٹ گرم کپڑے دستانے ٹوپی رکھنا ضروری ہے۔
- رین کوٹ بھی رکھنا ہوتا ہے تاکہ دن میں بارش کی صورت میں کپڑے گیلے نہ ہوں۔
- اس کے علاوہ کیمپ اور کھانے پینے کا انتظام جس ٹریول گروپ کے ساتھ جائیں گے وہ کرے گا۔ اگر آپ خود ٹرپ کا انتظام کر رہے ہیں تو مقامی پورٹر کی خدمات حاصل کی جائیں گی اور انہیں فی دن کے حساب سے معاوضہ ادا کیا جائے گا۔
ناران بیسل سے دودی پتسر جھیل کا سفر
بیسل سے پیدل ٹریک شروع ہو جاتا ہے۔ سفر کے آغاز میں لکڑی کی ڈولی میں ندی پار کرنا ہوتی ہے۔ ندی کے اُس پار گھوڑے انتظار کر رہے ہوتے ہیں جن پر سامان لادا جاتا ہے۔ ڈولی میں سامان بھی منتقل ہوتا ہے اور اُس پار جانے والے لوگ بھی۔
میرا چونکہ یہ دوسرا تجربہ تھا اس لیے راستے سے مانوس تھی۔ یہ بھی علم تھا کہ بیسل سے 14 کلومیٹر کا ٹریک کر کے مُلا کی بستی پہنچنا ہے جہاں ہم رات کیمپ میں قیام کریں گے اور اگلی صبح ناشتہ کر کے دودی پت سر جھیل پر جائیں گے جو مُلا کی بستی سے چار کلو میٹر کی دوری پر ہے۔
تو بات ہو رہی تھی ٹریک کی، ڈولی سے ندی پار کر کے تھوڑا چلنے کے بعد ایک اور ندی پیدل عبور کی جو کہ مشکل مرحلہ تھا کیونکہ پانی بہت ٹھنڈا تھا۔
میں نے جوتوں سمیت ندی پار کی اور ندی کے پار جا کر جوتے اتار کے نچوڑے اور جرابیں تبدیل کر لیں کیونکہ ایسا کرنا قدرے آسان لگا۔
ندی کے بعد گلیشئر چڑھنے کا مرحلہ تھا۔ اس کا انتظام بھی اس بار میں نے کر رکھا تھا۔ جوتوں کے اوپر کرمپان چڑھائے اور جھٹ گلیشئر چڑھ لیا کیونکہ گلیشئر چڑھنے کے لیے جوتوں کے نیچے چین کور پہنا ہو تو آسانی ہوتی ہے۔
اس کے بعد دو تین پہاڑ آتے ہیں جن کی چڑھائی چڑھنی ہوتی ہے۔ وہ تھوڑا سا مشکل ہے لیکن اتنا نہیں، اس کے بعد راستے میں بکروالوں کے خیمے بھی آتے ہیں۔ یہ بکروال سردیوں میں بالا کوٹ پارس چلے جاتے ہیں اور گرمیوں میں اپنے مال مویشیوں سمیت پہاڑوں پر آ جاتے ہیں۔ یہ سیزن اُن کے کمانے کا سیزن بھی ہوتا ہے۔
پہلا سات کلومیٹر پہاڑوں کا راستہ ہے جب کہ پہلے سات کلومیٹر کے بعد گھاس کے میدان کا راستہ ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس پورے ٹریک میں بہتے پانی کے چشمے لاتعداد ہیں جن کا پانی بہت ہی مزے کا ہے۔
چھ کلومیٹر میدان چل کر ملا کی بستی سے پہلے لکڑی کا ایک پل عبور کرنا پڑتا ہے۔ وہ پُل مقامی بکروالوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنا رکھا ہے، جس میں ایک وقت میں ایک شخص کے گزرنے کا راستہ ہے۔
ملا کی بستی میں موسم انتہائی سرد ہوتا ہے۔ ہم نے مقامی افراد سے پوچھا کہ اس کو مُلا کی بستی کیوں کہتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ یہاں کوئی بزرگ رہتے تھے جو عبادت گزار تھے۔ اُن کو لوگ ملا کے نام سے بلاتے تھے۔ اُن کی وفات کے بعد اس علاقے کا نام مُلا کی بستی رکھ لیا گیا۔
مُلا کی بستی میں موسم نہایت سرد تھا۔ بہت تیز برفیلی ہوائیں تھیں۔ جولائی کے موسم میں ہم اسلام آباد کی حبس زدہ گرمی سے ایک دم برفیلی ہواؤں میں آ چکے تھے۔
مُلا کی بستی میں بھی بکروالوں کے پتھروں سے بنے عارضی گھر تھے اور یہاں انہوں نے ایک باورچی خانہ بھی بنا رکھا تھا جہاں پیسے دے کر کھانا بنوایا جا سکتا تھا۔ باورچی خانے میں صرف دالیں ہی بنتی تھیں یا پھر ناشتے میں انڈے اور چنا پراٹھا۔
ملا کی بستی میں کچھ کیمپ لوگ اپنے لگاتے ہیں جبکہ کچھ بکروال بھی کرائے پر دے دیتے ہیں۔ وہاں ٹینٹ واش روم کی سہولت بھی موجود ہے۔ اگلی صبح ہم نے ملا کی بستی سے ناشتہ کیا۔ منہ پر بے تحاشا سن بلاک لگایا کیونکہ سطح سمندر سے آپ جتنا بلند ہوتے ہیں سورج کی شعاعوں سے جلد جلنے کا اتنا ہی امکان ہوتا ہے اس لیے پہاڑی سفر میں سن بلاک ایک لازمی جز ہے جسے لازمی اپنے بیگ میں رکھنا ہے۔
ملا کی بستی سے جھیل تک چار کلومیٹر فاصلہ ہے لیکن آکسیجن کم ہونے کی وجہ سے یہ چار کلومیٹر کا سیدھا راستہ عبور کرنے میں بھی ڈھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ چار کلو میٹر چلنے کے بعد ایک خوبصورت جھیل ہماری منتظر تھی جہاں ہم نے تصاویر بنوائیں اور لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں مخفوظ کیا۔
دودی پت سر جھیل سطح سمندر سے 12470 فُٹ کی اونچائی پہ واقع ہے۔ اسے جھیلوں کی ملکہ بھی کہا جاتا ہے۔