چینی صدر شی جن پنگ نے امریکی صدر جو بائیڈن کو ایک ٹیلی فون کال کے دوران تائیوان کے معاملے پر مداخلت کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کرنا ’آگ سے کھیلنے‘ کے مترادف ہو گا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چینی صدر کا یہ بیان امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کے تائیوان کے ممکنہ دورے کے بارے میں بیجنگ کے خدشات کو اجاگر کرتا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کے مطابق صدر شی نے جو بائیڈن کو بتایا: ’جو لوگ آگ سے کھیلتے ہیں وہ اس سے بھسم ہو جائیں گے۔ امید ہے کہ امریکہ اس بات کو مدنظر رکھے گا۔‘
صدر شی نے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ چین تائیوان کی آزادی اور بیرونی مداخلت کی سختی سے مخالفت کرتا ہے، کہا کہ واشنگٹن کو ’ون چائنا پالیسی‘ کی پاسداری کرنی چاہیے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ صدر بائیڈن نے شی جن پنگ کو بتایا کہ تائیوان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی ہے اور واشنگٹن ’سٹیٹس کو‘ کو تبدیل کرنے یا آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی یکطرفہ کوششوں کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ ٹیلی فون کال کے بعد تائیوان نے بائیڈن کی حمایت پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنی سکیورٹی شراکت داری کو مزید بہتر کرتا رہے گا۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ یہ طے شدہ کال بائیڈن انتظامیہ کی چین کے ساتھ رابطوں کو بڑھانے اور ’ذمہ داری کے ساتھ اپنے اختلافات کو سنبھالنے‘ کی کوششوں کا حصہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے جمعرات کو بتایا کہ پیچیدہ تعلقات کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے میں دونوں رہنماؤں نے دو گھنٹے سے زیادہ وقت فون پر گزارا اور آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت کی ضرورت پر زور دیا۔
اے پی نے عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بائیڈن نے اوول آفس سے صدر شی سے ٹیلی فون کال کی، جہاں ان کے ساتھ وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن سمیت اعلیٰ معاونین بھی موجود تھے۔
امریکی ایوان کی سپیکر کا دورہ تائیوان ایک ڈرامائی سیاسی اقدام ہو گا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی جس سے جزیرے کے لیے امریکی حمایت کا مظاہرہ کیا جائے گا تاہم کچھ تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ اس دورے سے بیجنگ کے ساتھ امریکی تعلقات کے خراب ہونے کے علاؤہ یہ ایک بڑے سیاسی اور عسکری بحران کو جنم دے سکتا ہے۔
واشنگٹن کے تھنک ٹینک سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں چین کے تجزیہ کار سکاٹ کینیڈی نے کہا کہ اس صورت حال سے بچنے کے لیے (دونوں ممالک کے درمیان) اعلیٰ سطح پر رابطے ضروری ہیں۔
سکاٹ کینیڈی نے کہا: ’انہوں نے ماضی قریب میں تصادم سے بچنے کے لیے کافی کام کیا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ اس کے لیے بار بار اور گہرائی سے رابطے کی ضرورت ہے۔‘
صدر شی جن پنگ کرونا وبا کے آغاز کے بعد سے ہانگ کانگ کا دورہ کرنے کے لیے صرف ایک بار ہی چین سے باہر گئے ہیں تاہم انہیں رواں سال نومبر میں دنیا کی سرکردہ معیشتوں کے اگلے جی 20 سربراہی اجلاس کے لیے انڈونیشیا میں باضابطہ طور پر مدعو کیا گیا ہے جہاں ان کی صدر بائیڈن کے ساتھ دو بدو ملاقات کا امکان ہے۔