سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سیاست تو ہمیشہ سے متنازع رہی ہے لیکن اب ان کا جیل جیسے مقام پر کھانا بھی ایک بڑا زیر بحث موضوع بنا ہوا ہے۔ وجہ جیل قوانین سے ناواقفیت ہے یا سابق وزیر اعظم کی اپنے لیے خصوصی مراعات کی خواہش؟
نواز شریف کے لیے کوٹ لکھپت جیل میں گھر کے کھانے کی فراہمی بند ہونے پر ان کی صاحبزادی مریم نواز نے احتجاج اور بھوک ہڑتال کرنے کی دھمکی دی ہے جبکہ پنجاب حکومت جیل میں ان کے کھانے کے مینیو کا بھرپور دفاع کر رہی ہے۔
اس معاملے پر دونوں طرف سے مسلسل بیان بازی ہو رہی ہے۔ ن لیگ نواز شریف کو صحت اور کھانے کی سہولیات سے متعلق شکایات جبکہ پنجاب حکومت ان کا بھر پور خیال رکھنے کا دعویٰ کرتی آ رہی ہے۔
جیل میں کھانے کا مینیول
کوٹ لکھپت جیل میں قید کاٹنے کے بعد رہائی پانے والے انور علی (فرضی نام) نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ جیل انتظامیہ امیر لوگوں کو اچھا کھانا جبکہ عام قیدیوں کو ایسا کھانا دیتی ہے جو صرف جینے کے لیے مجبوری میں ہی کھایا جاسکتا ہے۔
’جیل میں تین دن دال پکائی جاتی ہے جس میں چنے، ماش اور مسور کی دال شامل ہیں۔ نہ اس میں مصالحے پورے ہوتے ہیں نہ ہی بہتر طرح سے پکائی ہوتی ہے، پانی الگ اور دال الگ نظر آتی ہے جبکہ ایک دن چکن اور ایک دن آلو بیف پکایا جاتا ہے وہ بھی برائے نام ہی ہوتا ہے۔ صبح کے وقت چائے کے ساتھ ایک روٹی دی جاتی ہے جبکہ کھانے کے لیے آنے والی بہترین سبزی اور گوشت کہیں اور پہنچا دیا جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا جس دن جیل میں کسی جج یا سرکاری عہدے دار کا دورہ ہو اس دن بہتر کھانا مہیا کیا جاتا ہے اور قیدیوں کو سختی سے کہا جاتا ہے کہ زبان نہیں کھولنی۔ ’اگر کوئی شکایت کرے تو اسے سزا دی جاتی ہے۔‘
سابق قیدی نے مزید الزام عائد کیا کہ ’جتنا خرچہ اتنا ہی بہتر معیار کا کھانا ملتا ہے۔ زیادہ پیسے دینے والوں کو گھر سے بہتر کھانا دیا جاتا ہے۔‘
جیل کے ایک سینیئر افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جیل مینیول کسی سزا یافتہ قیدی کو گھر سے کھانا منگوانے کی اجازت نہیں دیتا۔ ان کے مطابق قیدی کسی کلاس کا بھی ہو لیکن کھانا ایک جیسا ہی فراہم کیا جاتا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ جیل میں چھ دن چکن اور تین دن دال پکائی جاتی ہے جبکہ اتوار کے روز لوبیہ اور دال دی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میڈیکل بورڈ کی سفارشات پر کسی بھی قیدی کو اس کی صحت کو بہتر رکھنے کے لیے مخصوص کھانا فراہم کیا جاسکتا ہے لیکن بورڈ کی اجازت کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔
نوازشریف کے کھانے پر سیاسی بیانیہ
مریم نواز کے مطابق پنجاب حکومت کے حکم پر ان کے والد کو جیل کا کھانا کھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے جبکہ ان کی بیماری کی وجہ سے انہیں گھر سے پرہیزی کھانا فراہم کیا جا رہا تھا۔
انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت کے فراہم کردہ جیل کے کھانے سے نواز شریف کی جان کو خطرہ ہے اور انہیں جیل سے ملنے والے کھانے پر اعتماد نہیں۔ انھوں نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ اگر نواز شریف کو گھر کا کھانا فراہم کرنے پر پابندی ختم نہ کی گئی تو وہ جیل کے باہر احتجاجی طور پر بھوک ہڑتال کریں گی۔
ان کا کہنا ہے ’اسے دھمکی نہ سمجھا جائے وہ یہ کر گزریں گی۔‘
اس پر ترجمان وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز گل معمول کے مطابق پھر میدان میں اترے اور ٹوئٹر پر ویڈیو پیغام میں دعوی کیا کہ گھر سے نواز شریف کے لیے مضر صحت کھانا آ رہا تھا۔
’میڈیکل بورڈ نے نوازشریف کو ناشتے میں پھل اور جوس تجویز کیے، دوپہر میں سبزی کے ساتھ مٹن کی مخصوص مقدار اور روٹی لیں گے۔ جیل میں باقاعدگی سے چیک اپ جاری ہے۔ کاڈیالوجسٹ بھی تعینات ہیں لیکن پھر بھی اگر وہ چاہیں تو پاکستان میں کہیں بھی مزید ٹیسٹ کروا سکتے ہیں۔‘
میڈیکل بورڈ نے نوازشریف کے لیے جیل عملے کی نگرانی میں صحت افزا خوراک کا چارٹ تیار کیا ہے۔ انھوں نے کھانے میں نمک اور پروٹین کی مقدار کم کروائی جبکہ چکنائی سے منع کیا ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق اگر جیل مینیول میں گھر سے کسی بھی قیدی کے لیے کھانے کی اجازت نہیں تھی تو ابتدا کے چند روز اس کی اجازت دینا بھی حکومت پنجاب کا غلط اقدام تھا، پھر اسے اچانک بند کرنے کے تنازع کو جنم دیا۔