پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے جمعرات کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے واپس لے لیا۔
پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر بابر اعوان نے اپنی جماعت کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کیا جس کے بعد اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں پی ٹی آئی رہنما چوہدری فواد حسین نے ریفرنس کے واپس لیے جانے کی تصدیق کی۔
واپس لیے گئے ریفرنس میں ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن کمیشن کے فیصلے سمیت دیگر معاملات کو اٹھایا گیا تھا جن کی بنیاد پر موقف اختیار کیا گیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے ’مسلسل اور جان بوجھ کر بدانتظامی کا ارتکاب’ کیا۔ ریفرنس میں انہیں ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کی استدعا کی گئی۔
پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ آٹھ سال بعد دو اگست 2022 کوسنایا گیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ پی ٹی آئی نے غیر ملکی افراد اور کمپنیوں سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔ اس کے علاوہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے پارٹی کے حساب کتاب کے متعلق معلومات کو الیکشن کمیشن آف پاکستان سے غیر قانونی طور خفیہ رکھا۔
چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس واپس لینے کی وجہ بتاتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے میں کچھ دیر بعد ہی ردو بدل کی، اس نقطے سے متعلق بھی حقائق اور ثبوت ریفرنس میں ڈالے جائیں گے۔
اس سے قبل سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرائے گئے ریفرنس میں پی ٹی آئی نے موقف اختیار کیا تھا کہ حکمران اتحاد پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کے ایک وفد کا 29 جولائی کوچیف الیکشن کمشنر اور چار دوسرے اہلکاروں سے ان کے دفتر میں ملاقات کی، جس کا مقصد ممنوعہ فنڈنگ کیس میں چیف الیکشن کمشنر پر ‘دباوٗ’ ڈالنا تھا۔
ریفرنس میں موقف اختیار کیا گیا کہ اسی ملاقات کے نتیجے میں الیکشن کمیشن نے دو اگست کو ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا دیا۔
پی ٹی آئی کے ریفرنس میں کہا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر پی ڈی ایم کے وفد سے ملاقات کر کے اپنے حلف کی ‘خلاف ورزی’ کے مرتکب ہوئے۔
واپس لیے گئے ریفرنس میں ممنوعہ فنڈنگ کیس کی کارروائی کے علاوہ پی ٹی آئی نے دیگر معاملات میں بھی چیف الیکشن کمشنر پر الزامات لگائے۔
ججوں کا ضابطۂ اخلاق
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، جس کے خلاف پی ٹی آئی ملک کی اعلی عدلیہ سے بھی رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ریفرنس میں چیف الیکشن کمشنر پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی اور ان کی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکامی کے الزامات بھی لگائے گئے۔
ریفرنس میں موقف اختیار کیا گیا کہ اعلی عدلیہ کے ججوں کے لیے موجود ضابطہ اخلاق کا اطلاق چیف الیکشن کمشنر پر بھی ہوتا ہے اور ہائی کورٹ کے جج کبھی کسی فرد یا ادارے سے زیر التوا مقدمات پر بات نہیں کرتے۔
دیگر ممنوعہ فنڈنگ مقدمات
ریفرنس میں کہا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پارٹی کی جانب سے دائر کئی درخواستیں خارج کر دی تھیں، جن میں تمام سیاسی جماعتوں (بشمول پی ٹی آئی) کے فنڈنگ کیسز کی مشترکہ سماعت کی درخواست بھی شامل تھی۔
ریفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کو ملنے والے ریلیف کا بھی ذکر کیا گیا، جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مساوی سلوک کرتے ہوئے، ان کے مقدمات کو مستعدی کے ساتھ سننے اور مناسب وقت میں نتیجہ نکالنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت کے برعکس الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صرف پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس میں فیصلہ سنایا، اور دیگر جماعتوں کے مقدمات کو التوا میں رکھا، جو ریفرنس کے مطابق ‘امتیازی سلوک ہے۔’
پی ٹی آئی کے ریفرنس میں لاہور ہائی کورٹ کے 2018 کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا گیا، جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پاکستان پیپلز پارٹی سے متعلق فنڈنگ کیس کو ایک ماہ میں نمٹانے کی ہدایت کی گئی تھی، جس کی تعمیل نہیں کی گئی۔
ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر عمل نہ کرنے کی وجہ صرف (پیپلز پارٹی کے سربراہ) بلاول بھٹو زرداری کو عام انتخابات میں فائدہ پہنچانا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ارکان اسمبلی کے استعفے
چیف الیکشن کمشنر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کیے گئے ریفرنس میں نو اپریل کو پی ٹی آئی کے 125 اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کا ذکر کرتے ہوئے الزام لگایا گیا کہ اس سلسلے میں بھی چیف الیکشن کمشنر کا رویہ امتیازی رہا۔
ریفرنس میں بتایا گیا کہ مذکورہ استعفے 13 اپریل کو گزٹ میں شائع کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کو بھجوائے گئے تھے، اس کے باوجود مستعفی ہونے والے اراکین قومی اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے گریز کیا گیا۔
دوسری طرف موجودہ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے غیرقانونی اور غیرآئینی طریقے سے گیارہ پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کرنے میں دیر نہیں لگائی گئی۔
پی ٹی آئی کے ریفرنس میں چیف الیکشن کمشنر پر یہ الزامات بھی لگائے گئے کہ انہوں نے مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی محمد کاشف چوہدری کے خلاف نااہلی کیس میں انہیں ڈی نوٹیفائی کرنے میں تاخیرکی اور جب مسلم لیگ ن سے ہی تعلق رکھنے والے سابق رکن پنجاب اسمبلی فیصل نیازی نے اپنی پارٹی سے علیحدگی کے لیے اپنی نشست سے استعفی دیا تو ڈی نوٹیفیکیشن کے عمل میں تاخیر کی گئی۔
الیکٹرانک ووٹنگ
ریفرنس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس مشین کو متعارف کرانے کی چیف الیکشن کمشنر نے مخالفت کی، جس کا مقصد پاکستان تحریک انصاف کے مخالفین کو مدد فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
ریفرنس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو مبینہ غیر ملکی سازش کے ذریعے ہٹائے جانے سے متعلق پی ٹی آئی کے موقف کا ذکر بھی کیا گیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل
سپریم جوڈیشل کونسل اعلی عدالتوں کے ججوں کا ایک ادارہ ہے، جو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ججوں کے خلاف مس کنڈکٹ کے مقدمات کی سماعت کے لیے بااختیار ہے۔
چیف الیکشن کمشنر کے خلاف بھی مس کنڈکٹ کے الزامات کی درخواست ریفرنس کی صورت میں سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی جاتی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ ہی کے دو سینیئر ترین ججوں اور دو صوبائی چیف جسٹسز پر مشتمل ہوتی ہے۔