عمران خان کے نو حلقوں سے خود امیدوار بننے کے اعلان نے تحریک انصاف کی صفوں میں ایک نئی روح تو ضرور پھونک دی ہے لیکن خان صاحب کے اس فیصلے کو ماسٹر سٹروک قرار دینے والےاس اہم نقطہ پر غور نہیں کر رہے کہ ان نو حلقوں سے پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو حکومت نے باقاعدہ ہوم ورک کر کے ڈی سیٹ کیا ہے۔
ان حلقوں میں سے بیشتر حلقے ایسے ہیں جہاں میں ہار جیت کا مارجن چند سو سے ہزار دو ہزار کے لگ بھگ رہا۔ اگر یہ مان کر بھی سوچا جائے کہ خان صاحب کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے تب بھی ان نو میں سے چار پانچ نشستیں ایسی ہیں جہاں خان صاحب کو انتہائی سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
2018 انتخابات میں کراچی کی این اے 237 ملیر ٹو کی نشست پیپلز پارٹی تیرہ سو ووٹوں سے ہاری۔ این اے 239 کورنگی کی نشست ایم کیو ایم ساڑھے تین سو ووٹوں سے ہاری۔ این اے 246 لیاری میں بلاول بھٹو پی ٹی آئی کے شکور شاد سے ہارے جو واقعی ایک بڑا اپ سیٹ تھا۔
لہذا خان صاحب کے لیے دوبارہ پیپلز پارٹی کے گڑھ سمجھے جانے والے لیاری میں جیتنا آسان نہیں ہو گا۔
اسی طرح این اے 45 کرم کے حال ہی میں ہونے والی ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدوار جے یو آئی سے صرف 1200 ووٹوں کی برتری سے جیتے۔
زمینی حقائق اور حالات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے یہ بات تواتر سے کی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھی ہے اور پنجاب کے ضمنی نتائج اسکی واضح مثال ہے۔ اس بات میں کسی حد تک وزن بھی ہے لیکن یہ حقائق ذہن نشین رکھنے پڑیں گے کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں تقریبا گیارہ حلقے ایسے تھے جہاں ن لیگ کی مقامی تنظیموں نے کھل کر اپنے امیدواروں کی مخالفت کی۔
عمران خان صاحب نے ان حقائق کے باوجود تمام حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا ایک بولڈ فیصلہ تو کر لیا لیکن اگر تحریک انصاف ان نو میں سے تین چار حلقے بھی ہار گئی تو حکومت اسے اپنی جیت قرار دے گی۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد حکومت اس موقع کی تلاش میں تھی کہ کیسے عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا تاثر ختم کیا جائے اور آنے والے ضمنی الیکشن میں حکومتی اتحاد اسی ذہن کے ساتھ میدان میں اترے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خان صاحب اس فیصلے سے یہ تاثر بنانے میں کامیاب رہے کہ کپتان کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کے عادی ہیں اور وکٹ گنوانے کی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ یہ تاثر بھی دی گئے کہ عمران خان اکیلے تمام سیاسی جماعتیں کے مدمقابل ہیں۔ لیکن خان صاحب ایک ایسا جوا کھیل گئے ہیں جس میں شکست کی صورت میں سیاسی نقصان انکی سوچ سے کئی گنا زیادہ ہو گا۔
انتخابی سیاست سے ہٹ کر دیکھا جائے تو گزشتہ چند دنوں میں تحریک انصاف اپنی سیاست کو چند معاملات سے کافی نقصان پہنچا چکی ہے۔ امریکی سفیر کے دورہ پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت کی گرم جوش مہمان نوازی پر وزیراعلی پختونخوا اور چند وزیروں پر کافی لعن طعن ہوئی کہ ایک طرف آپ امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں لیکن دوسری جانب ان پر سرکاری مہمان نوازی نچھاور کر کے ان سے امداد وصول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
دو تین دن سے جاری شدید تنقید پر تحریک انصاف کوئی کنونسنگ جواب نہ دی پائی لیکن پھر اچانک امریکی سفیر کے دورہ طورخم پر تحریک انصاف کے سینئیر رہنماؤں نے تنقید شروع کر دی۔
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے وزیراعلی کی اجازت کے بغیر یہ دورہ ہو ہی نہیں سکتا لیکن اس پر یہ دلیل دی گئی کہ امریکی سفیر کا دورہ طورخم فوج نے کروایا۔ تو کیا وزیر صحت تیمور جھگڑا نے چھتیس گاڑیوں کا تحفہ بھی فوج کے کہنے پر وصول کیا؟
وزیراعلی کے ساتھ امریکی سفیر کی مسکراہٹ بھری تصاویر بھی فوج کے کہنے پر کھچوائیں گئیں؟
اس دہرے معیار اور کنفیوژن پر مبنی مؤقف سے پی ٹی آئی نہ صرف اپنی سیاست کا ستیاناس کر رہی ہے بلکہ ایک اہم ملک کے ساتھ ملکی تعلقات کو بھی داؤ پر لگا رہی ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر علی سیف کا یہ بیان کہ امریکی سفیر سرکاری دورے پر صوبہ خیبر پختونخوا آئے تھے، جس کا تحریک انصاف کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں، تحریک انصاف کے بیانیے کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں۔
طورخم بارڈر کے امریکی سفیر کے دورے پر اپنی پارٹی کی تنقید پر بیرسٹر سیف نے یہ توجیہ پیش کی کہ تحریک انصاف کا اپنا ایک مؤقف ضرور ہے مگر امریکی سفیر پارٹی کے کسی دفتر میں نہیں بلکہ سرکاری حیثیت میں یہاں آئے تھے۔ ان کے مطابق امریکہ نے مختلف پروگرام چلانے میں صوبائی حکومت کو مدد فراہم کی۔
ایک طرف امریکی سازش دوسری جانب امریکی امداد لینے کی اوٹ پٹانگ صفائیوں پر یا تو قہقہے لگا کر ہنسا جا سکتا ہے اور یا چیخ چیخ کر رویا جا سکتا ہے لیکن سنجیدگی سے اس تضاد بھرے مؤقف پر یقینا غور نہیں کیا جا سکتا۔
پی ٹی آئی کو اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ 2018 کے انتخابات میں انکو اس وجہ سے جتوایا گیا کہ تحریک انصاف کی جانب سے پاکستانی عوام کو دکھائے گئے سہانے خواب شاید حقیقت میں بدل جائیں لیکن ساڑھے تین سالہ کارکردگی کے بعد انکو لانے والے اتنے پچھتائے کہ انکی سپورٹ سے پیچھے ہٹنے کو ہی ملک کی بہتری سمجھا گیا۔
اس میں نہ کوئی اندرونی سازش ہے نہ بیرونی اور یہ بات خود خان صاحب اچھی طرح جانتے ہیں۔
ایک اور اہم معاملہ ایسا ہے جس پر اس تحریر میں بات کرنا لازمی تصور کر رہا ہوں۔ تحریک انصاف کے کچھ حلقے سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف منظم مہم چلا رہے ہیں جو یقینا بیک فائر کرے گی لیکن اس منظم مہم میں جس طرح بلوچستان میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں شہید ہونے والے افسران کے حوالے سے جھوٹی خبریں گھڑی گئیں وہ کسی صورت ایک قومی جماعت کو زیب نہیں دیتیں۔
فوج کی سیاست میں مداخلت کی مخالفت اور اس پر تنقید کھل کر کریں، لیکن تنقید اور تضحیک میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا اب آپ کے لیے لازمی قرار پا چکا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔