پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین کے ساتھ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) معاہدے کے حوالے سے ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’یہ آرمی چیف کا کام نہیں تھا۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز نے جمعے کو خبر دی تھی کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے آئی ایم ایف معاہدے اور پاکستان کو موصول ہونے والی ممکنہ رقم کی وصولی میں جلدی کے لیے امریکی حکومت سے دباؤ ڈالنے کی درخواست کی ہے۔
امریکی نائب وزیرخارجہ اور پاکستانی فوج کے سربراہ کے درمیان گفتگو کی خبر سب سے پہلے خبر رساں ادارے نکی ایشیا نے رپورٹ کی تھی۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی جنرل قمر جاوید باجوہ اور وینڈی شرمین کے درمیان ہونے والی اس ٹیلی فونک گفتگو کی تصدیق کی ہے، تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
روئٹرز کے مطابق اپنی ٹیلی فونک گفتگو میں ’پاکستانی فوج کے سربراہ نے امریکہ سے درخواست کی کہ وہ آئی ایم ایف پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے تاکہ پاکستان کو ملنے والی ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کی امداد کی فراہمی جلد ممکن ہو سکے۔‘
روئٹرز ذرائع کے مطابق پاکستان میں موجود ایک عہدیدار نے تصدیق کی کہ ’پاکستانی فوج کے سربراہ اور امریکی حکام کے درمیان رابطہ ہوا ہے۔ ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ امریکی ردعمل کیا تھا لیکن اس نازک موقعے پر یہ ایک اچھا فیصلہ تھا۔‘
حالیہ ہفتوں میں پاکستان میں ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافے کے نتیجے میں پاکستانی روپے کی قدر میں بڑی کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے بعد ملک میں مہنگائی اور افراط زر کی نئی لہر کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
گذشتہ شب نجی نشریاتی ادارے اے آر وائے نیوز کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ سے جب آرمی چیف کی امریکی نائب وزیرخارجہ سے گفتگو کے حوالے سے سوال کیا گیا تو عمران خان نے جواب دیا کہ ’یہ کام آرمی چیف کا نہیں تھا۔‘
انٹرویو میں اسی گفتگو کے حوالے سے جواب دیتے ہوئے عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس صورت حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت پر کسی ملک کو اعتبار نہیں ہے۔ نہ آئی ایم ایف کو ان پر اعتبار ہے نہ ملک سے باہر کوئی ان پر اعتبار کر رہا ہے۔ اس لیے آرمی چیف نے یہ ذمہ داری لی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی انتظامیہ سے بات کی ہے تو یہ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان معاشی طور پر کمزور ہو چکا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے انٹرویو میں عمران خان نے سوال اٹھایا: ’اگر امریکہ ہماری مدد کرے گا تو کیا وہ ہم سے کوئی مطالبہ نہیں کرے گا؟‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’امریکہ جس قسم کے مطالبے پاکستان سے کرتا ہے، اگر وہ اس حد تک چلے گئے تو پاکستانی کی سکیورٹی کمزور ہو سکتی ہے۔‘
اپنے انٹرویو میں موجودہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ’مجھے موجودہ حکومت پر ترس آ رہا ہے، یہ کبھی عدلیہ پر حملے کرتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ عدم اعتماد سے ہمیں فائدہ دیا گیا ہے۔‘
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی امریکی انتظامیہ سے گفتگو کے معاملے پر اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں یا ان کے رہنماؤں کی جانب سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان رواں ماہ کے آغاز میں سٹاف لیول معاہدے میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ آئی ایم ایف پاکستان کو ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کی قسط جاری کرے گا لیکن آئی ایم ایف کو ابھی تک اپنے بورڈ سے اس کی منظوری کا انتظار ہے، تاہم اس بورڈ کا اجلاس اگست کے اختتام تک طے نہیں ہے۔
ادھر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’امریکی اور پاکستانی حکام باقاعدگی سے مختلف موضوعات پر ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں جو کہ رائج طریقہ کار ہے۔ ہم نجی سفارتی رابطوں کی تفصیلات پر بات نہیں کرتے۔‘
امریکہ آئی ایم ایف کا سب سے بڑا حصے دار ہے جبکہ گذشتہ برسوں کے دوران امریکہ نے پاکستانی فوج کے سربراہوں اور سویلین حکومت کے ساتھ قریبی تعاون سے کئی معاملات پر کام کیا ہے۔