مشرقی بھارت کی ریاست اڈیشہ میں ایک ریاست کا نام بہت ہی فلمی ہے۔ ’پیپلی‘ نامی اس گاؤں کے دستکاروں کے فن پارے بھی فلموں کی طرح رنگین ہیں، جس کی شہرت اس کے اپلیک اور پیچ کے کام سے ہے۔
بزرگوں کے مطابق یہ کام تب سے جاری ہے، جب سے جگناتھ دیوتا بے آف بنگال کی سمندری لہروں پر تیرتے ہوئے پوری میں براجمان ہوئے تھے۔
سالوں پہلے جب مندروں اور دیوتاؤں کو دھوپ سے بچانے کے لیے شامیانوں کی ضرورت ہوتی تھی، تب پیپلی کے باشندے کپڑوں میں خوبصورت پیچ لگا کر شامیانے بناکر بھیجتے تھے۔
روایت ہے کہ ان کا یہ ہنر دھیرے دھیرے عوام میں بہت مقبول ہوا، جس میں آج بھی کمی نہیں آئی۔
ہندو مذہب سے جڑے اس دستی ہنر کے ماہر غیر ہندو ہیں، جس میں زیادہ بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔
پیپلی کی مرکزی شاہراہ پر ایک دکاندار اور اپلیک دستکاری کے ماہر محمد شریف بتاتے ہیں کہ مقامی زبان میں اس کو چندوا کہتے ہیں اور اس کی ایک مذہبی حیثیت ہے۔
بقول شریف: ’چندوا کی دستکاری یہاں کے مذہبی رسم و رواج سے منسلک ہے۔ جب پیپلی کا نام نہیں تھا تب بھی یہاں کے لوگ مندروں کے لیے ہاتھوں سے شامیانے، پنکھے بناتے تھے اور آج بھی بناتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’سالوں سے اپلیک اور پیچ کا یہ کام ہمارے آباو اجداد کرتے آئے ہیں۔ اس کے بارے میں ہم نہیں جانتے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس کام میں ہندو مسلمان دونوں ہیں۔ جگناتھ دیوتا کے جس طرح سب سے بڑے شاعر سالبیگا مسلم تھے، اسی طرح ہم لوگ بھی یہاں کام کرتے ہیں۔ ہندو مسلم سب مل کر یہ کام کرتے ہیں۔‘
محمد شریف نے بتایا کہ اب اس کام کو کافی شہرت مل گئی ہے اور ’سب لوگوں کے گھروں میں ہمارا کام مل جائے گا۔‘
ایک ورکشاپ کے مالک جبار خان بتاتے ہیں کہ ’چندوا انہوں نے روزگار کی تلاش میں شروع کیا اور اب ان کی ایک بڑی دکان ہے۔‘
جبار خان نے بتایا کہ ایک وقت تھا جب پیپلی کی دستکاری برآمد کی جاتی تھی، مگر اب اتنا زیادہ کام نہیں ہے۔