اکرم نجی کمپنی میں کلرک ہے۔ اس کی ماہانہ آمدن 20 ہزار روپے ہے۔ چار بچے، ایک بیوی، بوڑھے ماں باپ اور ایک کنواری بہن اس کی ذمہ داری ہیں۔ گھر کا کرایہ دس ہزار روپے ہے۔ بقیہ دس ہزار روپے میں مہینے کے اخراجات چلانا تقریباً ناممکن ہے۔
پچھلے دنوں ڈالر کی قیمت بڑھنے سے مالک مکان نے گھر کا کرایہ بڑھا دیا۔ آٹا، چاول، گھی سمیت ضروریات زندگی کی ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔ بچوں کی سکول فیس بھی بڑھا دی گئی اور ماں باپ کی دوائی بھی مہنگی ہو گئی۔ جب ڈالر کی قیمت نیچے آنا شروع ہوئی تو اسے امید ہوئی کہ اب مہنگائی بھی کم ہو جائے گی، گھر کا کرایہ، بچوں کی فیس اور دوائی کی قیمت میں کمی آئے گی، لیکن اسے امیدوں پر پانی پھرتا دکھائی دے رہا ہے۔
ڈالر کی قیمت کم ہونے کے باوجود بھی کسی چیز کی قیمت کم نہیں کی گئی۔ اس ماہ 20 ہزار روپے پہلے دس دنوں میں ہی ختم ہو گئے، جو پہلے 20 دنوں میں ختم ہوا کرتے تھے۔
اس کا کہنا ہے کہ حکومت ڈالر ریٹ نیچے آنے کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے لیکن میں اس کامیابی اس وقت مانوں گا جب مہنگائی بھی کم ہو گی اور میرا گھر کا بجٹ 20 ہزار میں مینج ہو جائے گا۔ اگر حکومت مہنگائی کم نہ کروا سکی تو ڈالر ریٹ نیچے آنا صرف اعداد و شمار کا ہیر پھیر ہے اور کچھ نہیں۔
ڈالر ریٹ میں تیزی سے تبدیلی نے مختلف شعبوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس حوالے سے مزید جاننے کے لیے جب میں نے ایپٹما کے جزل سیکریٹری رضا باقر سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ ’ملکی برآمدات کا تقریباً 70 فیصد ٹیکسٹائل سیکٹر سے وابستہ ہے۔ ڈالر کی غیر یقینی صورت حال نے ٹیکسٹائل شعبے کو متاثر کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ برآمدات میں کمی ہو رہی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ٹیکسٹائل سیکٹر اپنی ضرورت کی آدھی سے زیادہ کاٹن درآمد کرتا ہے۔ حالیہ ایل سیز 240 کے حساب سے ریٹائر ہوئی ہیں۔ جس کی وجہ سے خریداری مہنگی ہوئی ہے اور دوسری طرف ڈالر ریٹ کم ہونے سے متوقع منافع میں بھی کمی آ رہی ہے، لہذا حکومت سے گزارش ہے کہ وہ ڈالر کا ایک ریٹ طے کردے تاکہ ٹیکسٹائل سیکٹر اسی کے مطابق ڈیل کر سکے۔ اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی تو برآمدات میں مزید کمی آ سکتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹیکسٹائل صنعت سے وابستہ کاروباری شخصیت محمد ساجد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میری چار لاکھ یورو کی ایک ڈیل تھی۔ جب ڈالر ریٹ بڑھا تو کسٹمر نے کہا کہ آپ کو فائدہ ہو رہا ہے، لہٰذا آپ مجھے مزید ڈسکاؤنٹ دیں، جو مجھے دینا پڑا۔ اس کے علاوہ ٹیسکٹائل میں استعمال ہونے والے کیمیکلز اور دیگر 70 فیصد خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ریٹ بڑھنے سے اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر مارکیٹ مستحکم ہوتی تو برآمد کندگان زیادہ فائدہ اٹھا سکتے تھے۔‘
میاں عبدالحنان صاحب گوشت کی برآمدات کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کے بڑے میٹ ایکسپوٹرز میں شامل ہیں اور پاکستان میٹ ایکسپورٹرز اینڈ پروسیسرز ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’ڈالر ریٹ میں غیر متوقع اضافے سے ملک میں جانوروں کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کے کرایوں، بجلی کے بلوں اور گیس کے ریٹس میں بھی ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ہم نے ڈالر ریٹ بڑھنے سے ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا ہے، لیکن ڈالر ریٹ کم ہونے سے ان اخراجات میں کمی نہیں ہو رہی، نہ ہی جانوروں کے ریٹ کم ہوئے ہیں اور نہ ہی بجلی گیس کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، بلکہ ڈالر ریٹ بڑھنے سے جو آمدن متوقع تھی اس کی امید بھی ختم ہو گئی ہے۔‘
منی چینجر
پاکستان میں منی ایکسچینج کی بڑی کمپنی کے سی ای او سلیم امجد نے بتایا کہ ’ڈالر ریٹ میں تیزی سے کمی نے ایکسچینج کمپنیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ گو کہ اس سے ملکی معیشت میں بہتری کے اشارے دیے جا رہے ہیں لیکن جو ڈالرز 245 روپے کے حساب سے خریدے گئے تھے آج وہ 220 روپے میں بھی فروخت نہیں ہو رہے، جس سے بھاری نقصان ہوا ہے۔ مارکیٹ میں ڈالرز کے خریدار کم ہو گئے ہیں۔ ہم مشکل وقت میں سٹیٹ بینک کو ڈالرز فراہم کرتے ہیں، لیکن ہمارے نقصان کی بھرپائی نہیں کی جاتی۔‘
سلیم امجد نے بتایا: ’سرکار سے کئی مرتبہ گزارش کی ہے کہ ایکسچینج کمپنیوں کو ڈالر ملک میں لانے کے لیے مزید سہولتیں دی جائیں۔ بینکوں کے پاس سینکڑوں آپشنز ہیں جبکہ منی چینجر صرف تین سے چار طریقوں کے علاوہ ڈالر پاکستان نہیں لا سکتے۔ اگر حکومت ہمیں سہولت فراہم کرے گی تو ایک طرف ڈالر کے غیر متوقع اتار چڑھاؤ سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ ہو سکے گا اور دوسری طرف ہنڈی کے ذریعے آنے والے ڈالرز میں کمی آ سکے گی جس کا فائدہ پاکستان کو ہو گا۔‘
کنسٹرکشن
پراپرٹی اور کنسٹرکشن کے وسیع کاروبار سے تعلق رکھنے والے عمر صفدر نے بتایا کہ ڈالر ریٹ بڑھنے سے سٹیل، ریت، بجری، ٹائلز اور سینیٹری سمیت تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ہر ایک گھنٹے بعد ریٹ بڑھایا جا رہا تھا لیکن جب سے ڈالر ریٹ کم ہونا شروع ہوا ہے، ان اشیا کی قیمتوں میں کمی نہیں ہو رہی ہے اور مستقبل میں بھی اس کے آثار دکھائی نہیں دیتے، جس کے باعث کنسٹرکشن کا کاروبار سکڑ رہا ہے۔ کھربوں روپوں کی یہ صنعت تنزلی کا شکار ہو رہی ہے، لیکن حکومت اس کے بچاؤ کے لیے اقدامات نہیں کر رہی۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر موثر ہیں۔ کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان بھی کمپنیز سے ریٹ بڑھانے کی وجوہات پوچھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ پاکستان میں تعمیرات کا 90 فیصد سامان درآمد ہوتا ہے۔ جس کا مکمل ریکارڈ حکومت کے پاس موجود ہے لیکن عدم دلچسپی کے باعث حالات تباہی کے دہانے پر آ پہنچے ہیں۔‘
گاڑیاں
آٹو سیکٹر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ’پاک ویلز‘ کے سربراہ سنیل سرفراز منج نے بتایا کہ ڈالر کی قیمت کم ہونے سے گاڑیوں کی قیمتیں فوری کم ہونے کے امکانات کم ہیں، کیونکہ جب ڈالر مستقل بڑھتا رہا اور ایک ماہ تک نیچے نہیں آیا تب گاڑیوں کی قیمتیں بڑھائی گئی تھیں۔ اگر ڈالر ڈیڑھ سے دو ماہ تک اسی طرح گرتا رہا یا ایک پوزیشن پر آ کر مستحکم ہو گیا تو پھر گاڑیوں کی بکنگ پرائز کم ہو سکتی ہے، لیکن اگر دو تین ہفتوں میں ڈالر اوپر نیچے ہی ہوتا رہا تو گاڑیوں کی قیمتیں کم نہیں ہوں گی۔
ڈالر ریٹ میں کمی کی وجہ کیا ہے؟
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا صاحب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈالر ریٹ میں کمی کے اعداد و شمار اور وجوہات ابھی تک مبہم ہیں، کیونکہ سٹیٹ بینک نے دو ماہ سے ریئل ایفیکٹو ایکسچیینج ریٹ نہیں چھاپا ہے۔ سٹیٹ بینک اعداوشمار چھپا رہا ہے۔‘
حفیظ پاشا کے مطابق: ’ڈالر کسی بھی وقت دوبارہ اوپر جا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کا قرض ملنے کے بعد کیا صورت حال بنتی ہے اس بارے میں بھی کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ ڈالر ریٹ نیچے آنے سے عوامی سطح پر فوری مثبت اثرات آنے کے امکانات کم ہیں۔ اگر ملکی سطح پر دیکھا جائے تو بین الاقومی سرمایہ کار سٹیٹ بینک کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کب رئیل ایفیکٹو ایکسچیینج ریٹ ظاہر کرے گا، اس کے بعد ہی ملکی معیشت کا درست اندازہ لگایا جا سکےگا۔‘
دوسری جانب ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ ’ڈالر ریٹ کم ہونے سے ملکی معیشت کو فائدہ ہو گا۔ کھربوں روپوں کے قرضے چند دنوں میں کم ہو گئے ہیں۔ البتہ عوام پر اس کے اثرات فوراً نہیں آتے۔ اس میں سٹیٹ بینک کے کردار کو سراہا جانا چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ نجی بینکوں کا احتساب بھی ضروری ہے۔‘
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’بنگلہ دیش میں بینکوں کے صدور کو ڈالر ریٹ بڑھانے پر گھروں میں نظر بند کیا گیا۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ڈالر ریٹ میں کمی کا مکمل فائدہ اٹھانے کے لیے شرح سود میں بھی کمی کی ضرورت ہے، بصورت دیگر عوام کو حقیقی ریلیف ملنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔‘
ملک کے بڑے سٹیک ہولڈرز اور ماہرین معیشت کی رائے کے بعد یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ڈالر ریٹ میں موجودہ کمی کو پاکستان کی ترقی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جس تیزی سے ڈالر اوپر گیا تھا اسی تیزی سے نیچے گر رہا ہے اور ممکنہ طور پر دوبارہ بڑھ سکتا ہے۔ ڈالر ریٹ میں تیزی سے اتار چڑھاؤ اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ سٹیٹ بینک اسے کنٹرول کر رہا ہے، لہٰذا یہ دعویٰ کرنا کہ ڈالر آزاد ہے، بظاہر غلط دکھائی دیتا ہے۔
یہ صورت حال ملکی کاروباری طبقے اور بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے تسلی بخش نہیں ہے۔