حال ہی میں موسمی تبدیلی کے حوالے سے پڑھتے ہوئے امریکی خلائی ایجنسی ناسا کی ویب سائٹ پر گیا جس میں کافی تفصیل سے موسمی تبدیلی کے حوالے میں بتایا گیا ہے۔
جو بات سب سے زیادہ تشویش ناک ہے وہ یہ کہ موسمی تبدیلی جس تیزی سے ہمارے سیارے کو تبدیل کر رہی ہے اس کا صحیح اندازہ ایک ایسے ملک میں بیٹھ کر نہیں لگایا جا سکتا جہاں موسمی تبدیلی کے بارے میں زیادہ بات ہی نہ ہوتی ہو۔
یا پھر موسمی تبدیلی کے بارے میں معلومات اس انداز میں نہ پیش کی جاتی ہوں جو ایک عام شخص کی سمجھ میں آ سکے۔
وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی صورت حال کو عام فہم زبان میں سمجھانے کے لیے مختلف سالوں میں لی گئی تصاویر کے ذریعے، انھی تصاویر میں تبدیلی دکھانے کے لیے ایک محض 30 سیکنڈ کی ویڈیو دکھا کر ناسا نے بہت آسانی سے ایک نہایت سنجیدہ اور تشویش ناک پیغام سب کو سمجھا دیا ہے۔
انہی تصاویر اور ویڈیو کی مدد سے یہ بتایا گیا کہ وسط سنچری یعنی 2050 تک آرکٹک اوقیانوس میں برف ختم ہو جائے گی۔
اسی طرح ہمالیہ میں گلیشیئرز کے بارے میں مختلف سالوں میں لی گئیں تصاویر کے ذریعے بتا دیا گیا ہے کہ کس تیزی سے گلیشیئرز میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
کرہ ارض کی آب و ہوا میں ہمیشہ سے تبدیلی رونما ہوتی رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ آٹھ لاکھ سالوں میں آٹھ برفانی دور اور گرم دور گزرے ہیں اور آخری برفانی دور 11 ہزار 700 سال قبل ختم ہوا تھا۔
اس دور کے بعد جدید آب و ہوا کے دور کا آغاز ہوا۔ تبدیل ہوتی آب و ہوا کی بڑی وجہ زمین کے مدار میں تھوڑی سی تبدیلی کو کہا جاتا ہے جس کے باعث زمین پر پڑنے والی سورج کی روشنی میں تبدیلی ہوئی۔
موسمی حدت کا یہ رجحان مختلف ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ یہ انسانوں کی وجہ سے رونما ہو رہی ہے۔ اس بات پر بھی دو رائے نہیں کہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ماحول میں اتنی گیسیں ہیں جن میں شمسی توانائی پھنس کر رہ گئی ہے۔
اسی توانائی کے باعث ماحول، سمندر اور زمین گرم ہو رہے ہیں یہ تمام تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق انیسویں صدی کے اواخر سے کرہ ارض کا درجہ حرارت ایک ڈگری سینٹی گریڈ بڑھا ہے۔ ایک ڈگری سینٹی گریڈ، بس! جناب ایسی بات نہیں کیونکہ اس ایک ڈگری سینٹی گریڈ میں سے زیادہ تر درجہ حرارت میں اضافہ گذشتہ 40 سالوں میں ہوا جو ایک تشویش ناک بات ہے کیونکہ کرہ ارض 90 فیصد حرارت سمندروں میں سٹور کرتی ہے۔
درجہ حرارت میں اضافے کے باعث پیدا ہونے والی حدت میں سے زیادہ تر حدت سمندر جذب کرتے ہیں۔ 1969 سے عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے سمندروں کا 328 فٹ تک کا پانی 0.33 ڈگری سینٹی گریڈ گرم ہوا۔
آخری برفانی دور میں زمین کے ایک تہائی حصے پر گلیشیئرز ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب گلیشیئرز صرف 10 سے 11 فیصد زمین ہی پر رہ گئے ہیں۔ اور سب سے زیادہ برف اینٹارکٹیکا میں پائی جاتی ہے۔ پگھلتی ہوئی برف اور گلیشیئرز ایک نہایت تشویش ناک بات ہے کیونکہ دنیا میں 69 فیصد تازہ پانی انہی گلیشیئرز اور آئس کیپس میں موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دنیا کا 97 فیصد پانی نمکین سمندروں میں ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ تازہ پانی کی ویسے ہی قلت ہے۔ اور دنیا کا 70 فیصد تازہ پانی آئس کیپس اور گلیشیئرز میں ہے۔ باقی 30 فیصد فریش پانی جھیلوں اور دریاؤں میں ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 24 سالوں میں یعنی 1994 سے لے کر 2017 تک زمین پر موجود برف میں سے تقریباً ساڑھے 12 کھرب ٹن برف ختم ہو چکی ہے۔
اور اگر ہر قسم کی برف کو شمار کر لیا جائے تو 24 سالوں میں 28 کھرب ٹن برف ختم ہو چکی ہے۔
تحقیق کے مطابق اگر کرہ ارض پر موجود تمام برف پگھل جائے تو سطح سمندر میں 216 فٹ اضافہ ہو جائے گا۔ سائنس دانوں کے اعداد و شمار کے مطابق 2006 سے لے کر دنیا کے گلیشیئرز جن میں الاسکا کے گلیشیئرز شامل نہیں میں 197 ارب ٹن سالانہ کمی واقع ہوئی ہے جبکہ الاسکا کے گلیشیئرز میں 73 ارب ٹن سالانہ کمی ہوئی ہے۔
پانی اور موسمی تبدیلی کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ پاکستان میں تازہ پانی کا ذخیرہ برف، گلیشیئرز اور مون سون کی بارشیں ہیں اور ان تمام پر موسمی تبدیلی کے گہرے اثر مرتب ہو رہے ہیں۔
وزارت برائے موسمی تبدیلی کی تازہ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث گلیشیئرز کے حجم میں کمی واقع ہو رہی ہے جس کے باعث دریائے سندھ کے پانی کے موسمی بہاؤ میں بھی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ چند سال پانی کا بہاؤ زیادہ ہے اور پھر چند سال کم۔ گلیشیئرز کی جھیلوں کے بننے اور پھٹنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور شدید موسمی واقعات میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے بلکہ ان میں شدت بھی آ رہی ہے۔ اسی وجہ سے پانی کی تقسیم میں مشکلات پیش آئیں گی اور پانی کی مزید قلت ہو گی۔