انڈیا کی ریاست گجرات میں2002 کے فسادات کے دوران حاملہ خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور اس کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے پر عمر قید کی سزا کاٹ نے والے 11 مجرموں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
تین مارچ 2002 کو گجرات کے ضلع داہود میں 21 سالہ بلقیس بانو، جو پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔ اس سے چند روز قبل سابرمتی ایکسپریس قتل عام کے بعد ریاست میں پرتشدد ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔
27 فروری کو سابرمتی ایکسپریس ٹرین میں 59 افراد اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کی کوچ کو ایک مبینہ مسلم ہجوم نے گجرات کے گودھرا سٹیشن پر آگ لگا دی تھی۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر ہندو تنظیموں کے رضاکار تھے۔ آگ کس نے لگائی تھی اس پر اکثر اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔ اس واقعے کے بعد ریاست میں غیر معمولی سطح پر تشدد شروع ہوگیا تھا۔ اگرچہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گودھرا سٹیشین کے واقعے کے بعد ہونے والے تشدد میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے لیکن غیر سرکاری اندازوں کے مطابق دو ہزار سے زائد افراد مارے ہوئے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
تشدد کے بعد بلقیس بانو اپنی چھوٹی بیٹی اور 15 دیگر افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے فرار ہو گئی تھیں۔ تین مارچ کو اس گروہ نے ایک کھیت میں پناہ لی تھی جب درانتیوں، تلواروں اور لاٹھیوں سے لیس 20 سے 30 افراد کے ہجوم نے ان پر حملہ کیا۔
بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا جبکہ چھ دیگر لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں بانو کی تین سالہ بیٹی بھی تھی۔
مجرموں کی رہائی کا اعلان پیر کے روز کیا گیا جس دن انڈیا نے اپنا 75واں یوم آزادی منایا۔ یوم آزادی کے موقعے پر ہندو قوم پرست بی جے پی کے رہنما اور اس وقت ریاست کے وزیر اعلی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی سالانہ تقریر میں خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریاست گجرات کی حکومت کے ایک اعلیٰ افسر راج کمار نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ مجرموں کے لیے عمر قید کی سزا کی معافی کی درخواست پر اس وجہ سے غور کیا گیا کہ وہ’14 سال جیل میں گزار‘ چکے تھے جبکہ دیگر عوامل جیسے ’عمر، جرم کی نوعیت، جیل میں برتاؤ وغیرہ‘ بھی اس میں شامل ہیں۔
اس واقعے کے بعد بلقیس بانو نے انڈیا کے قومی انسانی حقوق کمیشن سے رابطہ کیا تھا اور اس کے بعد سپریم کورٹ نے مرکزی تحقیقاتی بیورو (سی بی آئی) کے تحت وفاقی تحقیقات کا حکم دیا۔ 2004 میں اعلی عدالت نے اس معاملے کو گجرات سے باہر اور پڑوسی ریاست مہاراشٹر منتقل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ بلقیس بانو کا الزام تھا کہ ملزم کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ 2008 میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے 13 ملزمان کو مجرم قرار دیتے ہوئے اجتماعی زیادتی اور قتل کے الزام میں 11 افراد کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ مئی 2017 میں ممبئی ہائی کورٹ نے اس سزا کو برقرار رکھا تھا۔ 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ بلقیس بانو کو معاوضے کے طور پر 50 لاکھ روپے، ملازمت اور گھر فراہم کرے۔
11 مجرموں میں سے ایک رادھے شیام شاہ نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ وہ 15 سال اور 4 ماہ سے جیل میں ہیں۔ مئی میں عدالت نے کیس گجرات بھجوا دیا کیونکہ یہ جرم وہاں ہوا تھا۔ اس کے بعد گجرات حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے متفقہ طور پر معافی دینے پر اتفاق کیا۔
پیر کو پینل کی سربراہی کرنے والے پنچ محل ضلع کے اعلیٰ افسر سجل مایاترا نے کہا:’یہ سفارش ریاستی حکومت کو بھیجی گئی تھی اور کل ہمیں ان کی رہائی کے احکامات موصول ہوئے تھے۔‘ این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق جون میں انڈیا کی وفاقی حکومت نے ملک کے 75ویں یوم آزادی کے موقعے پر سزا یافتہ قیدیوں کے لیے خصوصی رہائی کی پالیسی تجویز کی تھی اور ریاستوں کے لیے رہنما اصول جاری کیے تھے۔
اس پالیسی کے مطابق زیادتی کے مجرم بھی ان جرائم پیشہ افراد میں شامل ہیں جنہیں رہائی نہیں دی جا سکتی۔
اپنی رہائی کے اعلان کے بعد رادھے شیام شاہ نے کہا کہ انہیں ایک نئی شروعات پر خوشی ہے۔ انہوں نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:’مجھے باہر آ کر خوشی ہو رہی ہے کیونکہ میں اپنے خاندان کے افراد سے مل سکوں گا اور ایک نئی زندگی کا آغاز کر سکوں گا۔‘ سوشل میڈیا کی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ11 مجرموں کی رہائی کے بعد گودھرا جیل کے باہر خاندان کے افراد ان کا استقبال کر رہے ہیں۔ تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ مجرموں کو مٹھائیاں پیش کی جا رہی ہیں اور رشتہ دار ان سے آشیرواد لینے کے لیے ان کے پاؤں چھو رہے ہیں۔
بلقیس بانو کے شوہر یعقوب رسول نے کہا کہ ان کے اہل خانہ اس رہائی پر ابھی کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے کہا:’ہمیں اس بارے میں نہیں بتایا گیا تھا. ہم صرف مرنے والے اپنے قریبی عزیزوں کے لیے دعا کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے فسادات میں اپنی جانیں گنوائیں۔ ہر روز ہم ان لوگوں کو یاد کرتے ہیں جو اس واقعے میں مارے گئے تھے جن میں ہماری بیٹی بھی شامل تھی۔‘
© The Independent