سپریم کورٹ آئندہ منگل احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کے سکینڈل کی سماعت کرے گی۔
آئندہ ہفتے کی کازلسٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ 16 جولائی کو اس کیس کی سماعت کرے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت اور سیاسی رہنما اعلی عدلیہ سے اس معاملہ کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
ادھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ جج صاحب کے پریس ریلیز کے بعد ان کا بیان حلفی ’کوراپ‘ کرنے کی بے سود کوشش ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ جج سے منسوب بیان حلفی تضادات کا مجموعہ ہے جسے وہ مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جج کا بیان حلفی خود ان کے خلاف چارج شیٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب باتیں اب بےمعنی ہیں، اصل بات یہ ہے کہ نوازشریف کو رہا کیا جائے۔ ’جج کو ہٹانے کے بعد نواز شریف کے خلاف فیصلہ کی قانونی حیثیت بھی خود بخود ختم ہوگئی ہے۔‘
اس سے قبل ایک جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج کو (جو وڈیو کی وجہ سے متنازعہ ہوئے) ہٹانے کے لیے وزارت قانون کو خط لکھ دیا تو دوسری جانب ارشد ملک نے اپنے صفائی میں ایک بیان حلفی بھی جاری کیا ہے۔
اسلام آباد کے عدالتی ذرائع نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ مسلم لیگ نون کی جانب سے الزامات پر مبنی ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد رواں ہفتے ’جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس میاں عامر فاروق سے دو مرتبہ ملاقات ہوئی۔‘ اُنہوں نے کہا ’کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں گذشتہ دو روز سے ارشد ملک کے معاملے کی تحقیقات ہو رہیں تھیں۔
لیکن بہت سے ذہنوں میں سوال یہ اٹھ رہے ہیں کہ متنازعہ ہو جانے والے جج کے زیر سماعت مقدمات کا کیا ہوگا؟ اور جس مقدمے کی وجہ سے متنازعہ ہوئے اس کیس کے فیصلے کی قانونی حیثیت کیا رہ گئی ہے؟ ان سوالات کا جواب جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے سپریم کورٹ کے سینئیر وکلا سے بات چیت کی۔
جج کے مستقبل کا حتمی فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کرے گی
سینئیر سپریم کورٹ وکیل شیخ احسن الدین شیخ نے کہا کہ جج ارشد ملک کے مستقبل کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اسلام آباد کے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس میں قائم خصوصی عدالتیں (بشمول احتساب عدالت) چونکہ وزارت قانون کے تحت کام کر رہی ہیں اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس براہ راست جج کی برطرفی کے احکامات کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو سزا سنانے اور فلیگ شپ ریفرنس میں بری کرنے والے جج محمد ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کے لیے وزارت قانون کو خط لکھا ہے۔ چونکہ ارشد ملک ڈیپوٹیشن پر یہاں تعینات تھے اس لیے معاملے کا حتمی لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کریں گے۔‘
سابق صدر پاکستان بار شفقت محمود چوہان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جج کے مِس کنڈکٹ پر وزارت قانون ڈائریکٹ ایکشن نہیں لے سکتی چونکہ جج لاہور ہائی کورٹ پنڈی بینچ سے ہیں اس لیے جج کے خلاف فیصلہ بذریعہ لاہور ہائی کورٹ چیف جسٹس لیا جائے گا۔ ججز کو ہٹانے کے حوالے سے باقاعدہ کمیٹی ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ لگ یہی رہا ہے کہ جج کے خلاف سروس سے ہٹانے کے ہی حتمی احکامات ہوں گے۔‘
سابق صدر سپریم کورٹ بار رشید اے رضوی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر جج کے اوپر دباؤ تھا تو اُن کو متعلقہ فورم کو اس سے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ موجودہ حالات کے تناظر میں عہدے سے ہٹانے کے بعد جج ارشد ملک پر پانچ سال وکالت سے دور رہنے کی پابندی لگ سکتی ہے۔‘
نائب صدر سپریم کورٹ بار خان افضل نے انڈپینڈنٹ اردو کے سوالات کے جواب میں کہا کہ ’میرے خیال میں جج ارشد ملک کو صرف عہدے سے ہٹانا کافی نہیں بلکہ ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے تاکہ کوئی اور جج عدلیہ کو بدنام نہ کر سکے۔‘
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ ’کوئی بھی سزا معطل نہیں ہو گی جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ جج ارشد ملک کے کیس کا فیصلہ نہیں کر لیتی۔‘
ثابت ہونے پر نواز شریف کے خلاف کیے گئے فیصلے کو مِس ٹرائل کہا جائے گا
تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بہتر ہوتا کہ متعلقہ فریق اس ویڈیو کو عام کرنے کی بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر شدہ اپیل کے ساتھ پیش کرتے تاکہ یہ ویڈیو قانونی طور پر عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن جاتی۔ جب تک ویڈیو ایپلٹ کورٹ کی فائل پر نہیں آتی تب تک عدالت اس پر کچھ نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ثابت ہونے پر امکان یہی ہیں کہ نواز شریف کے خلاف دیا جانے والا فیصلہ معطل ہو جائے گا کیونکہ قانونی زبان میں پہلے فیصلے کو مِس ٹرائل کہا جائےگا۔‘
سینئیر سپریم کورٹ وکیل احسن الدین نے کہا کہ ’اس بات کے امکانات بن رہے ہیں کہ فیصلہ کالعدم ہو جائے اور ٹرائل ازسرنو ہو یا نیا جج موجودہ ثبوت و گواہان کے بیانات کو سامنے رکھ کر دوبارہ فیصلہ دے گا۔‘
سابق صدر پاکستان بار شفقت محمود چوہان نے کہا کہ ’وڈیو سے انکاری نہ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ جج ارشد ملک اس معاملے میں اب متعصب ہو چکے ہیں۔ لیکن نواز شریف کے کیسز میں یہ دیکھا جائے گا کہ خلاف فیصلے میں جج کس حد تک ملوث ہے۔‘
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ صرف فیصلہ منسوخ ہوگا یا نیا جج موجودہ گواہوں اور بیانات کا جائزہ لے کر دوبارہ فیصلہ کرے گا یا نئے سرے سے کیس سنا جائے گا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’جب جج کا مِس کنڈکٹ ثابت ہو جائے تو پورا کیس ہی نئے سرے سے سنا جائے گا۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ باقی مقدمات جیسے کہ نندی پور پاور کیس، زرداری کے مقدمات کا مستقبل کیا ہوگا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’چونکہ ان مقدمات میں جج کا متعصب ہونا ثابت نہیں ہوا اس لیے وہ کیسز دستاویزات سمیت کسی دوسرے جج کے پاس چلے جائیں گے۔‘
سینئیر عدالتی صحافی اویس یوسف زئی نے بتایا کہ ’ماضی میں بھی ایسا واقعہ ہوا تھا جس میں ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس میں ایڈیشنل سیشن جج پرویز القادر میمن نے 31اکتوبر 2016 کو شعیب شیخ سمیت دیگر ملزمان کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا مگر بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بنچ کے سامنے رشوت وصول کر کے ملزمان کو بری کرنے کا اعتراف کر لیا۔‘
’اس اعتراف کے بعد جون 2017 میں جج کو معطل کر کے کام سے روک دیا گیا اور محکمانہ انکوائری کا آغاز ہوا۔ انکوائری میں قصوروار ثابت ہونے پر 15 فروری 2018 کو پرویز القادر میمن کو جج کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج چودھری ممتاز حسین نے دوبارہ سماعت کی۔ گواہوں کے بیانات اور ان پر جرح پہلے ہی ریکارڈ کا حصہ تھی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے فریقین کے دوبارہ حتمی دلائل سنے گئے اور فیصلہ سنایا گیا۔‘