پاکستان میں اگر میڈیا آزاد نہیں ہے تو صحافی بھی آزاد نہیں ہے۔ اس کا اندازہ صحافیوں کی زندگی گزارنے کے انداز سے لگایا جا سکتا ہے۔
سوائے کچھ بڑے اینکروں کے (اگر انہیں صحافی سمجھا جائے) اگر آپ رپورٹر یا پروڈیوسر ہیں تو آپ کی نیند اپنی ہے اور نہ ہی زندگی کیونکہ بیورو کا ٹیلیفون ہر وقت آپ کی زندگی کی گھنٹیاں بجاتا رہتا ہے اور بریکنگ نیوز کی دوڑ میں اگر آپ پیچھے رہ گئے تو سمجھ لیں کہ میڈیا مالکان اور بیورو کی نظروں سے بھی اتر گئے۔
اگر آپ پروڈیوسر ہیں تو ہر فریم پر آپ کا احتساب ہو گا اور اگر آپ وڈیو جرنلسٹ ہیں تو ناکافی اور مطلوبہ فوٹیج نہ ہونے کا شکوہ آپ کا بینڈ بجاتا رہے گا۔ تنخواہ کم، نامساعد حالات اور ہر وقت نوکری سے فارغ کیے جانے کا الگ خوف۔
کچھ میڈیا مالکان کا تو ایمان ہے کہ سرے سے تنخواہ ہی نہ دی جائے اور اگر کبھی کبھار کچھ مہینوں کے بعد انہیں رحم نہیں سپریم کورٹ یا پیمرا کا کوئی نوٹس آجائے تو دس، پندرہ فیصد چھ، سات یا آٹھ، نو مہینوں کے بعد اس طرح ادا کریں گے جیسے کوئی احسان کر رہے ہوں اور ساتھ ہی احکامات صادر کریں گے اگر کورٹ میں بلائے جاؤ گے تو کہنا کہ تنخواہ پوری مل گئی ہے۔
تنخواہ نہ ملنے کے دوران ان سب صحافیوں کی زندگی جس بے رحمی سے گزرتی ہے یا تو وہ خود جانتے ہیں یا ان کا خدا، اگر کسی کو ان کی کسمپرسی کا احساس نہیں تو وہ ہیں میڈیا مالکان یا ان کے سینیئر اینکرز اور افسران۔
پاکستان کے سب سے بڑے نیٹ ورک ہونے کے دعوے دار چینلوں کی طرف دیکھیں تو سب سے برے حالات انہی کے ہیں۔ افسران اور بڑے بڑے مگر مچھ اینکرز، جو ہر آتی جاتی اور آتے جاتے کو اپنی آنکھوں سے ہی کھا جاتے ہیں، اور اگر کچھ نہیں دکھائی یا سنائی دیتا تو ہے ان کے ملازمین کی خودکشیاں اور چیخیں۔
جنرل مشرف کے دورِ میں ریوڑیوں کی طرح الیکٹرونک میڈیا (ٹی وی اور ریڈیو ایف ایم) کے لائسنس بانٹے گئے تو کچھ امید ہو گئی کہ شاید صحافت پھلے پھولے گی اور جوان ہو کر اچھے سلجھے ہوئے طریقے سے پروان چڑھے گی، دنیائے صحافت میں پاکستان کا نام بھی جگمگائے گا۔ کتنا جگمگایا؟ دیکھا تو ہے آپ سب نے۔
صحافت کی کہانی کا بیک گراؤنڈ میوزک دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور کیوں اس کے موجودہ بلکہ غریبانہ اور احساس سے عاری حالات بتانے کی ضرورت محسوس ہوئی اس کی وجوہات کچھ یہ ہیں۔
1: ایک نجی ٹی وی اینکر کا بہیمانہ قتل۔
2: کئی اینکروں اور صحافیوں کا پرائیویٹ بزنس میں اپنی جمع پونجی کو انویسٹ کر دینا۔
3: کیا منافع ہاتھ آیا؟
4: اگر کچھ ہاتھ آیا تو موت اور جمع پونجی کا لٹ جانا۔
ان تمام نقصانات کے پیچھے کون ہے؟
کیا اگر صحافیوں اور اینکروں کو وقت پر اور کچھ سینئیر مگرمچھ اینکروں کے مقابلے کی تنخواہ مل رہی ہوتی تو ان کو اپنی اور اپنے سمیت دیگر دوستوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی کسی اور نجی کاروبار میں لگانے کی ضرورت محسوس ہوتی؟
اگر یہ میڈیا مالکان اپنے کچھ سینئیر افسران اور اینکرز کو دی جانے والی تنخواہوں کا 30 فیصد بھی ان جونئیرز کو دے دیں تو کیا وہ جان سے جائیں گے؟
سینیئر افسران اور مگرمچھ اینکروں کو چونکہ ان کی تنخواہ وقت پر مل رہی ہوتی ہے اسی لیے وہ مالکان کو نہ تو نچلے لیول کے صحافیوں، کیمرا مینوں اور اینکرز کے حالات بتاتے ہیں اور نہ ہی اپنے سٹاف کی اپیلیں سنتے ہیں۔
میں نے ایسے ایسے سینیئر اینکر جو کہ آرگنائزیشن کے صدر ہیں ان کے سامنے سٹاف کو روتے، خودکشی کی دھمکیاں دیتے سنا ہے لیکن مجال ہے کہ ان کے کان پر جوں تک رینگی ہو بلکہ وہ ان کی بات سننا ہی ترک کر دیتے ہیں۔
صحافی کہاں جائے؟ بازار ہی بچتا ہے اب۔ اور بازار میں نہ صرف عمر بھر کی جمع پونجی اور عزت لٹ جاتی ہے بلکہ جان بھی چلی جاتی ہے۔
مرید عباس کو دنیائے صحافت ہمیشہ یاد رکھے گی کہ کس طرح اس کی جان جانے سے ملک کے وہ خونخوار بھیڑیے منظر عام پر آئے جو صحافیوں اور غریب اینکروں کی دولت اور جان کے پیچھے گدھ کی طرح پڑے ہیں۔