دہشت گردی کے متاثرین کو یاد کرنے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا عالمی دن آج (اتوار کو) منایا جا رہا ہے۔
اس مناسبت سے انڈپینڈنٹ اردو نے گذشتہ دہائی میں شدت پسندوں سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک سوات کا دورہ کیا اور تازہ صورت حال کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔
یہ دورہ ایک ایسے پر وقت ہوا جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا سوات میں مبینہ طور پر انتہائی مختصر عرصے کے لیے نمودار ہونا اور پھر خاموشی سے لوٹ جانا آج بھی ایک معمہ ہے۔
وادی سوات میں 1995 میں تحریک نفاذ شریعت محمدی (TNSM) کے رہنما صوفی محمد نے اسلامی قانون نافذ کرنے کے مطالبے کے لیے مسلح مہم شروع کی۔
اس مہم کے دوران تشدد ہوا، درجنوں ہلاکتیں ہوئیں اور سیاحت، جو علاقے میں آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے، بری طرح متاثر ہوا۔
پھر 2004 اور 2007 کے درمیان مولانا فضل اللہ نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے غیرقانونی ایف ایم ریڈیو سٹیشن قائم کیے۔
انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کی اور اسلامی نظام کے نام پر پھر خون بہا اور کاروبار تباہ ہوئے۔ اس وادی کے لاکھوں افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی اس اعتبار سے ہر کوئی متاثر ہوا۔
ان دنوں مبینہ طور پر شدت پسند تو بعد میں آئے لیکن حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کے آغاز کے بعد بھتے کے لیے مقامی لوگوں نے بتایا کہ نامعلوم افراد کی ٹیلیفون کالز آنا شروع ہوگئیں۔
مالاکنڈ ٹریڈرز فیڈریشن کے صدر عبدالرحیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مذاکرات شروع ہونے کے بعد سے تاجران کو بھتہ دینے سے متعلق کالز موصول ہونا شروع ہو گئی تھیں جس پر تاجر بہت پریشان ہیں۔
اب دوبارہ شدت پسندوں کے دیکھے جانے کی خبروں نے یہاں کے باسیوں کو شدید پریشانی لاحق کر دی ہے۔
حکومت اور سکیورٹی ادارے عوام کو تسلی دے رہے ہیں کہ حالات قابو میں ہیں اور تشویش کا کوئی وجہ نہیں لیکن یہاں کے باسیوں کے لیے یہ تسلی کافی نہیں۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے خورشید کاکا جی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کچھ روز قبل قومی جرگے میں ایک شخص نے طالبان کی پہاڑوں پر موجودگی کی تصدیق کی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ان مسلح افراد کے مخصوص لباس میں اچانک نمودار ہونے کی لوگ فکر کرتے ہیں۔
’لوگ سوچتے ہیں کہ طاقت ور حلقوں کے علم میں آئے بغیر یہ کیسے داخل ہو سکتے ہیں کیوں کہ طاقت ور حکومتی حلقوں کی سہولت کاری کے بغیر یہ سب ناممکن ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو پاکستان کے شہری ہیں۔‘
ٹریڈرز فیڈریشن کے صدر عبدالرحیم نے کہا کہ ’طالبان دوبارہ سے سوات میں سر اٹھا رہے ہیں۔ اور یہ اس لیے ہو رہا ہے کیوں کہ ان سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔
’ان مذاکرات میں نہ کوئی فریق ہے نہ ثالث، ان مذاکرات سے پہلے ان افراد کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا جن کے خاندان قتل کر دیے گئے۔‘
سوات میں آپریشن کیسے کیا جا رہا ہے؟
ڈسٹرکٹ پولیس آفس میں حکام نے بتایا کہ 25 جون، 2022 کو خطرے کی ابتدائی رپورٹ ملنے کے بعد کارروائی شروع کی گئی۔
’پلان کے تحت ہر دوسرے روز تحصیل بریکوٹ، کبل اور مٹہ میں آپریشن کیا جاتا رہا، جس راستہ سے یہ گزر کر آتے ہیں وہاں مختلف جگہوں پر تقریبا ہر رات گھات لگائی جاتی ہے۔
’اس عمل میں 30 ایلیٹ فورس اور ڈسٹرکٹ پولیس کے اہلکار حصہ لیتے تھے جس کی سربراہی ایس ایچ او کرتا تھا اور یہ دیر رات سے صبح تک جاری رہتا تھا۔ یہ آپریشن تقریباً 35 روز تک چلا۔‘
انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے دو فوکس پوائنٹ ہیں جن میں تحصیل مٹہ اور کبل شامل ہیں۔
’ان علاقوں میں رہنے والے دہشت گردوں کے 431 رشتہ داروں اور گھر والوں سے پوچھ گچھ کی جاتی رہی کہ آیا وہ ان سے رابطے میں ہیں یا نہیں۔
حکام نے بتایا کہ ان کی موجودگی سے متعلق رپورٹ کرنے میں مقامی افراد نے کافی مدد کی۔ اس عمل میں تاخیر بھی ہوئی کیوں کہ یہاں افراد ڈرے ہوئے تھے۔ معلومات ملتے ہی آپریشن شروع کیا جاتا تھا جس وجہ سے ان دہشت گردوں کو کہیں ٹکنے نہیں دیا گیا۔
ٹی ٹی پی سوات میں کہاں موجود ہے؟
ڈسٹرک پولیس آفس کے حکام نے بتایا کہ سوات میں اوپر کی جانب جائیں تو پہاڑوں کا بڑا سلسلہ ہے۔ دیر کی طرف اسبانہ کے ساتھ ایک علاقہ ہے جو دیر بالا کی طرف سے آتا ہے، جہاں سے ماضی میں ٹی ٹی پی گزر کر آتی رہی ہے۔
حکام کے مطابق: ’پہاڑی سلسلہ سر گئی درہ کے علاقے سے ملتا ہے جو پہاڑوں پر سب سے اونچی جگہ ہے۔ یہ افراد اس لیے وہاں رہتے ہیں کیوں کہ وہاں پہنچنا بہت مشکل ہے اور جون کے مہینہ میں بھی وہاں برف پڑتی ہے۔
’ان کی موومنٹ صرف رات کے وقت ہوتی ہے۔ دوسری جانب نارتھ ساؤتھ وزیرستان سے بھی دراندازی ہو رہی ہے۔ طالبان یا کوئی بھی دہشت گرد باجوڑ کے علاقے سے آتے ہیں کیوں کہ یہ ایک پورس باڈر ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈسٹرک پولیس آفس کے حکام نے بتایا کہ ’دہشت گرد اس وقت مالدرہ جائے اور باجوڑ شہید کے علاقے میں موجود ہیں جو تحصیل مٹہ میں پہاڑوں پر واقع ہیں۔
’مالدرہ جائے جوکالا کوٹ کا علاقہ ہے اور پہاڑی سلسلہ ہے وہاں اس وقت آپریشن جاری ہے۔ اور یہ وہی جگہ ہے جہاں انہیں آخری مرتبہ دیکھا گیا تھا۔‘
حکام کے مطابق یہ تین کلومیٹر کا علاقہ ہے، جس کو مقامی افراد سے خالی کروایا گیا ہے۔
پولیس حکام نے بتایا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ارکان کے سوات میں موجود رشتہ داروں اور گھروں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ بعض رشتہ داروں سے تفتیش بھی کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تفتیش کا مقصد یہ معلومات حاصل کرنا تھا کہ کہیں ان کے رشتہ دار ( ٹی ٹی پی میں شامل مسلح افراد) کا ان سے رابطہ تو نہیں ہوا یا حال ہی میں وہ یہاں ( سوات) اپنے گھر کو تو نہیں آئے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم نے جب مختلف علاقوں کا دورہ کیا تو یہ محسوس ہوا کہ حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کی موجودگی کی خبروں کی تردید تو کر رہی ہے لیکن یہاں کہ مقامی لوگ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی سوات میں ایک بار پھر واپس آ چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سوات میں مظاہرے اور سیمینارز منعقد ہوتے نظر آئے۔
مبینہ آڈیو کی تصدیق؟
ڈسٹرکٹ پولیس آفس کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل طالب اور میڈیا پرسن کی گفتگو میں یہ بات درست ہے کہ ’ہم ایک جگہ جاتے ہیں تو پولیس اس جگہ آجاتی ہے۔ کسی جگہ چڑھتے ہیں تو یہ وہاں آجاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ جہاں بھی ایسی رپورٹ ملی ہم فوراً وہاں چلے گئے۔‘
حکام کے مطابق یہ آپریشن متعلقہ سکیورٹی اداروں کے ساتھ مشترکہ طور پر کیا جا رہا ہے۔ ’یہ افراد کبل کے پہاڑوں سے نیچے نہیں آ رہے۔ یہ کبھی نظر آتے ہیں تو کبھی غائب ہو جاتے ہیں۔ ‘
ٹی ٹی پی کا کیا کہنا ہے؟
دوسری جانب ٹی ٹی پی نے ’مذاکراتی عمل کو پروپیگنڈوں کے ذریعے ناکام‘ بنانے والوں کے متعلق جاری کردہ اعلامیہ میں کہا کہ ’بیرونی پروپیگنڈے کے ذریعے یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ مذاکرات کی آڑ میں خیبر پختونخوا اورقبائلی علاقوں میں طالبان کو دوبارہ لانے اور امن خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
’یہ بات ہم کئی بار پہلے بھی واضح کرچکے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے تمام ممبران دیگر پاکستانیوں کی طرح اس ملک کے شہری ہیں۔‘
پاکستانی فوج کا موقف
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے سوات میں طالبان کے پھیلاؤ اور موجودگی سے متعلق بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ زمینی حقائق کا پتہ لگانے کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ یہ رپورٹس گمراہ کن اور مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔
ہفتے کی رات جاری بیان میں کہا گیا کہ ’کالعدم ٹی ٹی پی کے مسلح افراد کی وادی سوات میں موجودگی کی خبریں میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیر گردش ہیں۔
’سوات اور دیر کے درمیان آبادی سے دور کچھ پہاڑوں پر کچھ مسلح افراد کی موجودگی کو دیکھا گیا۔ بظاہر یہ افراد افغانستان سے اپنے آبائی علاقوں میں واپس آئے ہیں۔‘