پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامرخان سیاہ رنگ کی بڑی سے گاڑی ( سپورٹس یوٹیلٹی وہیکل ) کی پچھلی نشست پر بیٹھنے کے بعد دروازہ بند کردیتے ہیں۔ وہ فوری طور پر گاڑی کا ائرکنڈیشنر بند کر دیتے ہیں جس کی ہوا سیدھی ان کے چہرے پر پڑ رہی ہے۔ وہ جدہ میں بحرہ احمر کے تپتے ہوئے ساحل کی دوسری طرف دیکھ رہے ہیں۔
عامر خان کہتے ہیں ان کے سعودی عرب کے پہلے سفرسے اب تک دس سال ہو گئے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر کوئی 18 یا 19 برس ہو گی۔ اتنے عرصے میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔
خود عامر خان میں بھی بہت سی تبدیلی آئی ہے۔ وہ ایک غیرمعروف اور پیدائشی باصلاحیت لڑکے سے جنہوں نے 2004 کے اولمپک مقابلوں میں چاندی کا تمغہ حاصل کرکے برطانوی عوام کا دل جیت لیا تھا، برطانیہ کے تجربہ کار باکسروں میں شامل ہو چکے ہیں۔ اور 15 برس پہلے یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں موسم گرما میں ہونے والی باکسنگ کے مقابلے میں حصہ لینے کے بعد سے اب تک لڑ رہے ہیں۔
’ جدہ سیزن ‘ کا حصہ ہونے کی وجہ سے ان کا نیا مقابلہ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ سپورٹس سٹی میں ہوگا۔ سعودی عرب کی جنرل سپورٹس اتھارٹی سابق لائیٹ ویلٹرویٹ عالمی چیمپئن کو اس علاقے کی طرف مائل کرنے کی اہمیت کو سمجھتی ہے۔ جمعے کی نصف شب سے ذرا پہلے آسٹریلوی باکسر بلی ڈب کے ساتھ عامر خان کا مقابلہ ہو گا۔
بعض حلقوں نے یہ مقابلہ مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے اس مقابلے کو سادہ الفاظ میں مال بنانے کی کوشش یا نمائشی قرار دیا ہے لیکن اس ہفتے جدہ کے انتہائی گرم جمنازیم میں عامر خان کی ان تھک تیاری سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سعودی عرب میں اپنے قیام کو ہلکا نہیں لے رہے۔ کم از کم اس وقت تو نہیں جب انہوں نے ہفتہ بھر کے مقابلوں میں حصہ لینا ہے۔
عامر خان کو امید ہے کہ فتح کی صورت میں جدہ میں ہی فلپائن کی سینٹ کے رکن اور باکسر مینی پاکیاؤ سے نومبر میں ان کا مقابلہ ممکن ہو جائے گا۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ سے قبل عالمی اعزاز کے حصول کی آخری کوشش کر سکتے ہیں۔ اس لیے ان کا اصرار تھا کہ اس مقابلے کو چیمپئن شپ ویٹ کے درجے کا بنایا جائے اور اس سے ایک اونس بھی زیادہ نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عامر خان کہتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر عالمی اعزاز چاہتے تھے اس لیے باکسنگ کا تازہ مقابلہ 147 پاؤنڈ کیٹیگری کا ہے۔ جب وہ یہ بات کر رہے ہیں ان کی گاڑی جم کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ مقابلہ اس بین الاقوامی اعزاز کے لیے ہے جس کی بدولت وہ باکسنگ کے عالمی درجوں میں بہت اوپر چلے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے وزن میں چند اضافی پاؤنڈ بڑھا سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اب ایک ویلٹرویٹ مقابلہ چاہتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ویلٹرویٹ باکسر محسوس کرتے ہیں۔
عامر خان مزید کہتے ہیں کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہتے تو ان کا باکسنگ میں رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ زندگی میں ہرکام کے اہداف ہوتے ہیں اور وہ ان تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ان کا ہدف اب ایک اور عالمی اعزاز ہے۔
عامر خان اس سے پہلے باکسنگ کے کئی بڑے مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں لیکن ان کے مقابلوں کی اتنی تشہیر کبھی نہیں ہوئی جتنی سعودی عرب میں ہونے والے مقابلے کی ہو چکی ہے۔ 32 سالہ باکسر کے والدین پاکستانی شہری ہیں۔
گذشتہ 12 ماہ کے عرصے میں سعودی عرب ایسے ملک کے طور کے سامنے آیا ہے جس کے باکسنگ کے حوالے سے پسندیدہ ہونے کا امکان کم ہے۔ گذشتہ سال ستمبر میں اسی مقام پر برطانوی باکسر کیلم سمتھ اور ان کے ہم وطن جارج گرووز کے درمیان ورلڈ باکسنگ سپرسیریز کے فائنل میں مقابلہ ہؤا تھا۔ اب سعودی عرب میں باکسنگ کے اور مقابلے بھی ہونے ہیں۔ عامر خان اور مینی پاکیاؤ کے درمیان مقابلہ ان میں سے ایک ہے جو بااختیار حلقوں میں زیر بحث آ چکا ہے۔
عامر خان کہتے ہیں کہ جب وہ پہلی بار سعودی عرب آئے تو پابندیاں کہیں زیادہ تھیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں جدت آئی ہے۔
وہ کہتے ہیں ’میں نے سنا ہے کہ سعودی حکومت جدہ اور دارالحکومت ریاض کو زیادہ تجارتی شہر بنانا چاہتی ہے اور بلاشبہ باکسنگ کا یہ مقابلہ اس مقصد کا ایک حصہ ہے۔‘
عامر خان کا کہنا تھا کہ سارا دباؤ ان پر ہے کیونکہ مقابلے کی تشہیر سمیت وہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ ان پر دباؤ معمول سے زیادہ ہے لیکن وہ پہلے بھی ایسی صورت حال سے نمٹ چکے ہیں۔ وہ اسے باکسنگ کا ایک معمول کا مقابلہ سمجھتے ہیں۔
عامر خان کے مطابق وہ نئے میدانوں میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں جن میں اس سے پہلے کسی باکسر نے قسمت نہیں لڑائی جن میں برطانوی باکسر پرنس نسیم حامد اور باکسنگ کے دوسرے بڑے نام شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ باکسنگ میں جو کرنا چاہتے تھے کر چکے ہیں بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ وہ دو دہائیاں گزرنے کے باوجود باکسنگ کا کھیل اب تک جاری کیوں رکھے ہوئے رکھے ہیں۔عامر خان کے خاندان میں ایک بیوی اور دو بچیاں ہیں۔ باکسنگ کے دوران ان کے ہاتھوں پر کئی زخم آئے جن کے نشانات اب بھی موجود ہیں۔ ہاتھوں کی ہڈیاں بھی متاثر ہوئیں لیکن انہوں نے اتنا کما لیا ہے کہ ان کا خاندان اور آنے والی نسلیں آرام دہ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
چھوٹے قد کے مالک فیدرویٹ باکسر بلی ڈب بھی سمجھتے ہیں وہ عامر خان کو شکست فاش دیں گے کیونکہ برطانوی قصبے بولٹن کے رہائشی باکسر صرف پیسے کے لیے سعودی عرب آئے ہیں۔
دوسری جانب عامر خان کا کہنا ہے کہ بات صرف اتنی ہے کہ وہ بعد میں پچھتانا نہیں چاہتے۔ ان سے جو بن پڑا وہ کریں گے اور جب باکسنگ کے دستانے ہاتھوں سے اتاریں تو انہیں علم ہوگا کہ انہوں نے وہ سب کرلیا جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کبھی کبھار وہ سوچتے ہیں کہ تھوڑا آرام کر لیا جائے کیونکہ ان کا جسم بوڑھا ہو رہا ہے لیکن انہیں وہ سب کرنے سے پہلے یہ مقابلہ کرنا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ ہلنے جلنے کے قابل نہ رہیں وہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
باکسر عامر خان کہتے ہیں کہ ان کی زندگی ایک جنون کا شکار رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں بھی یہ جنون برقرار ہے اور واقعی اس کا کوئی اختتام نہیں ہے۔ یہ صورت حال بہت مشکل ہے لیکن انہوں نے اسے قبول کر لیا ہے۔
عامر خان کے مطابق وہ اپنی بیوی اور بیٹوں کو بھی سعودی عرب ساتھ لائے ہیں کیونکہ اس سے ذہن کو تھوڑی دیر کے لیے دوسری جانب سے لے جانے میں مدد ملتی ہے۔ بعض اوقات آپ تھک جاتے ہیں اور اپنے خاندان اور دوسرے قریبی لوگوں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ عامر خان کہتے ہیں کہ انہیں خوشی ہے کہ ان کا خاندان ان کے ساتھ ہے اور ان کی مدد کر رہا ہے۔
عامر خان کا کہنا تھا کہ یہ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا آخری باب ہے۔ وہ باکسنگ کے چند آخری مقابلوں میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور انہیں خوشی ہے کہ اب کچھ لوگ ان کے ساتھ موجود ہیں جو آخرتک ان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
عامر خان کو کئی بڑے خاندانی تنازعات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں ان کی وجہ سے انہیں نقصان پہنچا۔ قریبی دوست بھی آئے اور چلے گئے۔
عامر خان کہتے ہیں کہ اب وہ نئے کام کر رہے ہیں اور ماتھے کا پسینہ پونچھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وہ باس بن کر زندگی کے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں۔ وہ خود ان تمام معاملات کو نمٹا رہے ہیں جن میں میڈیا کے ساتھ کئے گئے وعدے بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے ان میں یہ ہمت نہیں تھی۔ انہیں ہمیشہ بتایا گیا ہے کہ کیا کرنا ہے لیکن اب انہیں ہمت مل گئی ہے۔
عامرخان کہتے ہیں : ’ میں نے ہمیشہ فیاضی کے مظاہرے کی کوشش کی ہے اور مجھے علم ہے کہ میں نے لوگوں کا خیال رکھا ہے۔ لیکن ہوتا یہ کہ آپ واقعی محسوس کرتے ہیں کہ گویا آپ کو دوسروں کے لیے کچھ کرنا ہے۔ مجھے ہمیشہ ایسا لگا کہ چونکہ میں ایسی جگہ باکسنگ کرنے جا رہا ہوں جہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں صرف ایک مکا میری پوری زندگی تبدیل کر سکتا ہے۔ اس لیے مجھے ہر کسی سے زیادہ اخلاق کے ساتھ پیش آنے کی ضرورت ہے۔ ‘
عامر خان کے مطابق یہ صرف ہرکسی کے ساتھ اچھے برتاؤ کی بات ہے۔ وہ ہر کسی کے ساتھ زیادہ اچھی طرح پیش آنا چاہتے ہیں کیونکہ باکسنگ رنگ میں اترتے وقت انہیں سب کی نیک خواہشات اور دعاؤں کی ضرورت ہے۔
عامر خان نے پیشہ ورانہ زندگی میں باکسنگ کے 38 مقابلوں میں حصہ لیا۔ وہ تین مقابلوں کے تمام راؤنڈ میں شکست سے دوچار ہوئے۔ یہ ناکامی ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ وہ اب اس خطرے سے پوری طرح باخبر ہیں جو باکسنگ جاری رکھنے کی صورت میں انہیں درپیش ہے۔ ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے اپریل میں امریکی باکسر ٹیرنس کرافورڈ کے ساتھ مقابلہ ’ ترک ‘ دیا تھا۔ عامر خان کا مؤقف ہے کہ وہ بھاگنے کی بجائے مرنا پسند کریں گے۔
عامر خان کا مسکراتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ ایسے ہی پاگل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں باکسنگ کے رنگ میں جان بھی دینا پڑی تو وہ دے دیں گے۔ وہ آخر تک مقابلے کے قائل ہیں۔ وہ ایسے ہی انسان ہیں۔
عامر خان کہتے ہیں یہ نرا پاگل پن ہے۔ جب انہیں اس کا احساس ہوتا ہے تو وہ ڈر جاتے ہیں۔
عامر خان کے مطابق جمعے کی رات انہیں ایک اور خطرہ درپیش ہوگا لیکن وہ اس سے نمٹنا جانتے ہیں۔ انہوں نے سخت تربیت لی ہے۔ وہ بلی ڈب سے شکست نہیں کھائیں گے اور مرتے دم تک مقابلہ کریں گے۔