خرید وفروخت کے دوران شناختی کارڈ کی شرط پر حکومت سے اختلافات کے بعد تاجر برادری نے آج (بروز ہفتہ) ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دے رکھی ہے لیکن کئی شہروں میں تاجر تنظیمیں اس احتجاج سے علیحدگی اختیار کر رہی ہیں۔
احتجاج رکوانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) شبرزیدی نے سرمایہ داروں اور تاجروں سے متعدد ملاقاتیں کیں لیکن بظاہر وہ تاجروں کے تحفظات دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
تاجروں نے اپنے چھ مطالبات تسلیم نہ ہونے پر احتجاج کی جو کال دی ہے اس سے ملکی معیشت کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ایسے میں بعض شہروں کی مقامی تنظیموں نے حکومت کا ساتھ دینے کے لیے ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔
دوسری جانب فلور ملز ایسوسی ایشن نے بھی ٹیکسوں کے خلاف 17 جولائی کو ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
ہڑتال کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
سال 20-2019 کا بجٹ پیش ہونے کے پہلے دن سے ہی سرمایہ داروں، تاجروں، تنخواہ دار طبقے اور عام شہریوں نے عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ سب سے زیادہ تاجر طبقہ بے چینی کا شکار نظر آیا۔
تاجر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انہوں نے مطالبات تسلیم ہونے کے لیے حکومت کو وقت دیا، ملاقاتیں کیں لیکن جب بات نہیں بنی تو وہ اپنے کاروبار بند کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کا اعتراض ہے کہ بجٹ میں اتنے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں جو ان کی آمدن سے زیادہ ہیں، لہذا انہوں نے ہڑتال کا راستہ اپنایا۔
تاجروں کے مطالبات کیا ہیں؟
انجمن تاجران کی جانب سے حکومت کو پیش کیے گئے مطالبات کے مطابق سیلز انوائسز پر شناختی کارڈ نمبر درج کرنے کی شرط ختم ہونی چاہیے، تھوک و پرچون (ڈسٹری بیوٹرز، ریٹیلرز) سے ٹرن اوور پر1.5 فیصد کے بجائے خالص منافع پر ٹیکس لیا جائے، پرچون فروش (ریٹیلرز) پر فکسڈ ٹیکس کا نظام لاگو کیا جائے، ٹریڈرز کو ود ہولڈنگ ایجنٹ نہ بنایا جائے، ہول سیلرز، ریٹیلرز کوسیلز ٹیکس سے استثنیٰ دے کر مینوفیکچرنگ اور امپورٹ کی سطح سے سیلز ٹیکس کی وصولی کی جائے اور تمام ریجنز سے نئے پرانے موبائل فونز کی امپورٹ عام اجازت دے کر نئے اور پرانے فونز پر ڈیوٹی کی ریسٹرکچرنگ کی جائے۔
ان مطالبات سے صرافہ بازار، کپڑا مارکیٹیوں، کراکری، سٹیشنری، کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والے تمام قسم کے کاروباری حضرات نے اتفاق کرتے ہوئے ہڑتال کی کال دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آل پاکستان انجمن تاجران خواجہ شفیق گروپ کے مرکزی جنرل سیکرٹری نعیم میر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر بغیر سوچے سمجھے اور تاجروں کی رائے لیے بغیر ٹیکس لاگو کر دیے۔
انہوں نے کہا کاروباری طبقہ ٹیکس پہلے بھی ادا کر رہا ہے اور آئندہ بھی کرنے کو تیار ہے لیکن اگر ان کی آمدن سے بھی زائد ٹیکس اور کڑی شرائط عائد کی جائیں گی تو کیا کاروبار ہوگا؟ ان شرائط میں پھنسے تاجر کیسے ٹیکس ادا کریں گے؟ انہوں نے کہا ملک بھر کے تاجر ہڑتال کی کال کے ساتھ ہیں، صرف بعض نام نہاد پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے تاجر اس کال سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ ان کی سیاسی مجبوریاں ہیں۔
انجمن تاجران خالد محمود گروپ کے سربراہ خالد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ان کی سربراہی میں تاجروں کے وفد نے جمعرات کی رات اسلام آباد میں چیئرمین ایف بی آر سے ملاقات کی، جس میں طے پایا کہ حکومت تاجروں کے چھ میں سے تین مطالبات تسلیم کرنے کو تیار ہے اور اس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جائے گا لیکن یہ وعدہ وفا نہ ہوا لہذا ان کے گروپ نے بھی ہڑتال کی حمایت کر دی۔
ہڑتال روکنے کی حکومتی کوششیں ناکام کیوں؟
وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ دنوں اپنی معاشی ٹیم سمیت کراچی کا دورہ کیا اور صرف سرمایہ کاروں اور تاجر نمائندوں سے ملاقاتیں کر کے ان کے مسائل سنے۔ آبادی اور کاروباری لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں وزیر اعظم سے مختلف وفود کی ملاقاتیں کرائی گئیں۔ ان ملاقاتوں میں شریک تاجروں اور سرمایہ داروں نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
وزیر اعظم سے کراچی میں ملاقات میں موجود چیئرمین بزنس مین گروپ سراج قاسم تیلی نے ایک بیان میں کہا کہ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے وزیر اعظم سے تاجروں کی الگ الگ ملاقاتیں کرائیں لیکن ان ملاقاتوں کا مقصد مسائل کے حل سے زیادہ فوٹو سیشن تھا۔ ’کام کی باتیں کم تھیں جبکہ سیاسی گفتگو زیادہ کی گئی، ان کے وفد کی ملاقات میں انہوں نے کاروباری طبقے کے مسائل سے آگاہ کیا لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔‘
انہوں نے کہا سب شہروں سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر کے لوگوں کو وقت کم دیا گیا، وزیر اعظم باتیں سمجھ رہے تھے لیکن بعض لوگ مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہ آئے، ٹیکسوں کے معاملے پر مطالبات کو عملی طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا، مشیر خزانہ حفیظ شیخ مطالبات تسلیم کرنے میں سنجیدہ نہیں۔
انہوں نے کہا مشیر خزانہ نے وزیر اعظم کی موجودگی میں اعلان کیا کہ خرید و فروخت پر شناختی کارڈ کی شرط ختم نہیں ہوگی، حکومت کو کاروباری حضرات کے لیے لچک دکھانی چاہیے۔
چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ان کا تمام تاجرنمائندوں سے فون پر رابطہ ہے اور انہوں نے تاجروں کو مطمئن کردیا ہے، اگر کوئی ہڑتال کرے گا تو وہ بلاجواز ہوگی۔
انہوں نے کہا ایک حد تک مطالبات تسلیم ہو سکتے ہیں لیکن ٹیکس کے نظام میں بہتری اور معیشت کی مضبوطی کے لیے ٹیکس وصولیوں میں رعایت نہیں دی جا سکتی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کی کوششوں سے حالات بہتر ہوئے تو ٹھیک ’ورنہ اللہ حافظ۔‘
آل پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن نے بھی 17جولائی سے ٹیکس کے خلاف ملک بھر میں فلور ملز بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین نعیم بٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ ماضی میں گندم اور چوکر پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں لگایا جاتا تھا، حالیہ وفاقی بجٹ میں گندم کی مصنوعات اور چوکر پر سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا چوکر پر سیلز ٹیکس کا براہ راست اثر آٹے کی مصنوعات کی قیمتوں پر ہوگا، موجودہ صورتحال میں آٹے کے تھیلوں کی قیمت پر 40 روپے فی تھیلا اضافہ ہوگا۔