خیبر پختونخوا حکومت نے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے گریڈ 17 کے اسسٹنٹ کمشنر کو کسی بھی شخص پر ریاست کے خلاف ’غداری‘ کے مقدمات درج کرنے کا اختیار دیا ہے اور اس کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے علی امین گنڈا پور سمیت دیگر سے ایسی درخواستیں وصول کرنے کا کہا گیا ہے۔
تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق کوئی بھی حکومت کسی سیاسی شخص کو درخواستیں جمع کرانے کا اختیار نہیں دے سکتی، کیونکہ اس سے یہ قانون سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔
انتظامیہ کی جانب سے جاری مراسلے کے مطابق صوبائی حکومت نے ڈیرہ اسماعیل خان کے اسسٹنٹ کمشنر منیر احمد کو کریمینل پروسیجر ایکٹ کی دفعہ 196 کے تحت اختیار دیا ہے کہ وہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 108A,153A, اور 505 کے تحت مقدمات درج کر سکتے ہیں۔
مراسلے میں لکھا گیا ہے کہ اختیار کنندہ پاکستان تحریک انصاف کے ڈی آئی خان سے سابق رکن قومی اسمبلی علی امین خان گنڈا پور یا کسی بھی شخص سے ان دفعات کے تحت درخواستیں وصول کریں۔
کریمینل پروسیجر ایکٹ کی دفعہ 196 کے مطابق صوبائی یا وفاقی حکومت کسی بھی سرکاری ملازم کو ریاست کے خلاف جرائم کے مقدمات درج کرنے کا اختیار دے سکتی ہے۔
اس دفعہ کے مطابق: ’کوئی بھی عدالت پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 108A,153A, 294A, 295A, اور 505کے تحت تب تک کارروائی نہ کرے ، جب تک ان مقدمات کی درخواست صوبائی یا وفاقی حکومت کی طرف سے اختیار کنندہ افسر کی طرف سے دائر نہ کی گئی ہو۔‘
پاکستان پینل کوڈ ( پی پی سی ) کی یہ دفعات ریاست کے خلاف جرائم کی ہیں۔ پی پی سی کی دفعہ 108A کسی کو قتل پر اکسانے کے حوالے سے ہے او اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کو قتل کرنے پر اکسایا تو ان کے خلاف مقدمہ درج ہوگا۔
اسی طرح پی پی سی کی دفعہ 153A زبانی، تحریری طور پر یا کسی بھی دوسرے طریقے سے کسی مذہبی یا دوسرے گروپ کے جذبات کو ابھارنے کے حوالے سے ہے جو ریاست کے خلاف جرم قرار دیا جاتا ہے جبکہ پی پی سی کی دفعہ 505 مسلح افواج کے خلاف کچھ بولنے، لکھنے یا شائع کرنے کے حوالے سے ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے 2020 میں بھی اسی قسم کا ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جس میں وزارت داخلہ کے ایک سیکرٹری کو ریاست کے خلاف غداری کے مقدمات درج کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔
صوبائی حکومت کی جانب سے علی امین گنڈا پور کو مقدمات درجن کرنے کے اختیار پر انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف سے رابطہ تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز بیانات پر پی ڈی ایم رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ ’اس حوالے سے ڈی آئی خان کے اسسٹنٹ کمشنر منیر احمد کو اختیارات دیے ہیں اور یہ مقدمات علی امین کی شکایات پر درج کیے جائیں گے۔‘
کیا یہ اقدام قانونی ہے؟
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل اور ریاست کے خلاف مقدمات کی پیروی کرنے والے طارق افغان کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو بھی اختیار دے، تاہم قانون میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ وہ کسی سیاسی رہنما کو اس مقصد کے لیے اختیارات دے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے طارق افغان نے کہا کہ ’اس میں ایک قانونی نکتہ یہ بھی ہے کہ ایک کیس کے لیے الگ الگ نوٹیفیکیشن جاری کریں گے۔ ابھی جو خیبر پختونخوا حکومت نے کیا ہے، تو اس کا واضح مقصد تو یہ ہو سکتا ہے کہ صوبائی حکومت اس قانون کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے۔‘
طارق افغان نے مزید کہا کہ ’قانونی طور پر ایک سرکاری ملازم کو اس مقصد کے لیے اختیار دینا چاہیے کیونکہ اگر صرف ایک شخص کو یہ اختیار دیا جائے تو یہ ایک قسم کی آمریت ہوگی اور سیاسی رہنما اس قانون کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کریں گے۔
’سیاسی منظر نامہ کچھ اس طرح ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف غداری کے مقدمات درج ہوئے ہیں جن میں عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل پہلے سے زیر حراست ہیں، تو اس نوٹیفیکیشن سے لگتا ہے کہ چونکہ یہاں صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے تو حکومت اس قانون کو استعمال کر کے سیاسی مخالفین پر غداری کے مقدمات درج کرانا چاہتی ہے۔‘
علی امین گنڈا پور نے خود بھی گذشتہ روز ایک ٹویٹ کے ذریعے اسلام آباد پر ’ٹیک اوور‘ کی بات کی تھی اور پولیس کو ’دھکمی آمیز‘ لہجے میں خبردار کیا تھا کہ عمران خان کو گرفتار کرنے سے ’باز‘ رہیں۔
دانیال خان چمکنی سپریم کورٹ کے وکیل ہیں اور ان کی رائے بھی یہی ہے کہ کوئی بھی حکومت ایک خاص سیاسی شخص کو اس قانون کے تحت اختیار نہیں دے سکتی۔
انڈپیندنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے دانیال چمکنی کا کہنا تھا کہ ’ہر ایک کیس میں الگ الگ شکایت کنندہ اور مقدمے کو ڈیل کرنے کا طریقہ الگ ہوتا ہے، تو اس وجہ سے ایک ہی شخص سارے مقدمات میں شکایات کنندہ ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔
’اب حکومت نے یہ کیا ہے تو اس کا واضح مقصد تو یہی ہو سکتا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت سیاسی انتقام کے لیے سیاسی رہنماؤں پر غداری کے مقدمات درج کرانا چاہتی ہے، کیونکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر اسلام آباد میں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔‘
دانیال چمکنی کہتے ہیں کہ سی آر پی سی کی جس دفعہ کی بات ہو رہی ہے، اس دفعہ کو حکومت اس وقت استعمال کرتی ہے جب متعلقہ ضلعے یا علاقے میں ایسی کوئی ایمرجنسی ہو، جس سے نمٹنا معمول کے عدالتی نظام میں مشکل ہوتا ہے، کیونکہ وہ وقت لیتا ہے تو حکومت ایگزیکٹیو مجسٹریٹ کو ایسے مقدمات جلد نمٹانے کے لیے یہ اختیار دیتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور ہائی کورٹ کے ایک وکیل نور شیر کی جانب سے پیر 22 اگست کو پشاور کے تھانہ شرقی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثنا اللہ، خواجہ سعد رفیق، عطا تارڈ، پرویز رشید اور ایاز صادق کے خلاف غداری کے مقدمات درج کرنے کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی۔
درخواست (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں لکھا گیا ہے کہ پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے ’سوشل میڈیا پر موجود ویڈیو کلپس میں پاک فوج اور دیگر عسکری قیادت اور عدلیہ کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال انگیز رویہ اپنا کر پاکستان کو ہمسایہ ملک کی ایما پر کمزور کرنے کی سازش رچائی‘ ہے۔
درخواست گزار کے مطابق: ’مذکورہ بالا ملزمان نے اپنے بیانات میں یہ تاثر دیا کہ جیسے ان کی نظر میں میری بہادر فوج پاکستانی عوام کی دشمن ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنے بیانات میں پاک فوج، ریٹائرڈ جرنیلوں اور حاضر سروس جرنیلوں کے نام لے کر ان کے خلاف نفرت انگیزی پھیلانے کی کوشش کی ہے۔‘
درخواست گزار نور شیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے تھانے کے ایس ایچ او کو ان رہنماؤں کے بیانات کے تمام تر ثبوت فراہم کیے ہیں اور ان سے درخواست کی ہے کہ ان ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔‘
نور شیر نے بتایا کہ ’ایس ایچ او نے درخواست قبول کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ درخواست کو دیکھیں گے اور پھر مقدمہ درج کرنے کا بتائیں گے۔ اگر تھانے میں مقدمہ درج نہیں کیا گیا، تو پھر ہم مقدمہ درج کرنے لیے عدالت سے رجوع کریں گے۔‘