وزیراعظم عمران خان نے حالیہ دنوں میں متعدد بار اپوزیشن پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ’بیرونی ایجنڈے‘ پر پیش کی گئی۔
انہوں نے کئی بار ایک ’مراسلے‘ کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ امریکہ نے موجودہ حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی دھمکی دی۔ انہوں نے پاکستان میں کئی سیاست دانوں کے غیرملکی سفیروں سے ملاقاتوں کا بھی ذکر کیا ہے۔
اس مبینہ دھمکی آمیز خط پر حکومت کی جانب سے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلوایا گیا، جس کے اعلامیے میں اس مراسلے کو مداخلت اور غیرسفارتی تو قرار دیا گیا مگر سازش یا تحریک عدم اعتماد کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب قومی اسمبلی میں پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد، تین اپریل کو ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی جانب سے آرٹیکل پانچ کی بنیاد پر آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کردی گئی تھی۔
یہ معاملہ پھر سپریم کورٹ میں گیا، جہاں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو آئین سے متصادم قرار دے کر قومی اسمبلی کو بحال کر کے نو اپریل کو اجلاس طلب کرنے کا حکم دیا۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اپوزیشن پر لگا ’بیرونی سازش کا آلہ کار‘ بننے کا الزام ہٹ چکا ہے؟
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 6 کہتا ہے کہ ’ہر وہ شخص غدار ہے جو طاقت کے استعمال یا کسی بھی غیر آئینی طریقے سے آئینِ پاکستان کو منسوخ، تحلیل، معطل یا عارضی طور پر بھی معطل کرتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش بھی کرتا یا ایسا کرنے کی سازش میں شریک ہوتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے سپریم کورٹ کی اس کارروائی کی رپورٹنگ کرنے والے رپورٹر حسن ایوب، تجزیہ کار زاہد حسین اور قانونی ماہر جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال سے رابطہ کیا گیا۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا سپریم کورٹ کی کارروائی کے دوران قومی سکیورٹی کونسل کے اعلامیے یا منٹس پر بات کی گئی؟ صحافی حسن ایوب نے بتایا: ’اس مراسلے کا ذکر ضرور ہوا اور ڈاکٹر بابر اعوان نے اس پر بات کرنے کی کوشش کی مگر اٹارنی جنرل نے اس پر مداخلت کی اور کہا کہ اگر اس مراسلے پر بات کی تو سٹیٹ کونسل کرےگا اور عدالت نے بھی اس بات سے اتفاق کیا اور بابر اعوان کو اس پر بات کرنے سے روک دیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ قومی سلامتی کونسل کے بارے میں صرف ذکر ہوا مگر عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ نہ ہمارے سامنے ہے، نہ ہم اس کو دیکھ رہے ہیں۔
حسن ایوب نے مزید کہا کہ ’چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ ہم صرف آئینی معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔‘
انہوں نے سپریم کورٹ کی کارروائی کے متعلق بتایا کہ ’اس حوالے سے جو بات کی جارہی تھی کہ امریکہ حکومت تبدیل کرنا چاہتا ہے، اس سے متعلق سماعت میں بات نہیں کی گئی۔‘
حسن ایوب کا کہنا تھا کہ ڈپٹی سپیکر نے آرٹیکل 5 کو بنیاد بنا کر وفاداری پر سوال اٹھاتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کیا، تاہم یہ آرٹیکل 5 کیسے لاگو ہوا، اس پر بھی سپریم کورٹ میں بات نہیں کی گئی۔
حسین ایوب کی رائے میں: ’اپوزیشن پر غداری کا الزام ثابت ہی نہیں ہوا کہ اپوزیشن غیر ملکی احکامات کی آلہ کار بنی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے نے اپوزیشن پر لگنے والے الزامات کا تاثر زائل کیا اور اس بات کو تقویت ملی کہ عمران خان نے حکومت بچانے کے لیے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا۔‘
تحریک انصاف کی حکومت نے بھی مقدمے میں مراسلے کا ذکر تو ضرور کیا لیکن کسی پاکستانی کے ملوث ہونے کے بارے میں کوئی ثبوت یا شواہد پیش نہیں کیے نہ اس بارے میں بات کی۔ تاہم تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید خان نے غداری کی تشریح کچھ ہوں کی۔
آرٹیکل 6 ان پر لگےگا جو بکیں گےاورجو خریدیں گے-یہ آئینی تبدیلی نہیں-آئین سے غداری ہے-یہ رکن اسمبلی کی حلف ( آرٹیکل 65) سے غداری ہو گی- آرٹیکل 63 کےساتھ ساتھ آرٹیکل 62 کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے- یعنی تاحیات نا اہلی - سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ اس حوالےسے 2018 میں فیصلہ دے چکا ہے https://t.co/SpC9oPSoqt pic.twitter.com/QDQ4bMygHz
— Faisal Javed Khan (@FaisalJavedKhan) March 13, 2022
دوسری جانب سینئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے اپوزیشن پر لگنے والے الزامات کا تاثر ختم ہونے یہ نہ ہونے سے متعلق کہا کہ ’سپریم کورٹ کا فیصلہ صرف ایک نقطے پر تھا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غیرقانونی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ اس مسئلے میں گئی ہی نہیں ہے کہ کوئی مراسلہ ہے کہ نہیں اور اس فیصلے سے ثابت نہیں ہوتا کہ اپوزیشن اس میں ملوث ہے کہ نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’حکومت نے جو الزام لگایا ہے، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔‘
بقول زاہد حسین: ’ان الزامات کو اب تک وہ کسی قانونی پلیٹ فارم پر لے کر گئے ہی نہیں ہیں اور مستقبل میں بھی اگر ان الزامات پر فیصلہ آتا ہے تو اس کا اثر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نہیں ہوگا۔‘
اس سارے معاملے پر قانونی رائے کے لیے جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ڈپٹی سپیکر نے لوگوں کو غدار کہہ کر جو تحریک عدم اعتماد کو مسترد کیا تھا، صرف اس پر فیصلہ کرنا تھا۔‘
جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال سے جب پوچھا گیا کہ کیا سپریم کورٹ کو رولنگ کی بنیاد کو دیکھنا چاہیے تھا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے کچھ ثبوت تو ہونے چاہییں۔ کوئی کمیشن تو ہوتا۔ جو کمیشن بنانے کی کوشش کی اس کے نامزد سربراہ نے ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا۔‘
بقول ناصرہ اقبال: ’اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں نظرثانی ہو سکتی ہے، وہ بھی اگر کوئی نئے واقعات سامنے آئیں تو۔‘
غداری میں کسی کو سزا ہوئی؟
پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو دسمبر 2019 کو چھ سال تک مقدمہ چلنے کے بعد آئین شکنی کے الزام میں خصوصی عدالت کے دو ججوں نے سنگین غداری کا مجرم قرار دیا تھا جبکہ جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا اور کہا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔
پرویز مشرف پر آئین شکنی کا الزام تین نومبر 2007 کو آئین کی معطلی اور ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے لگایا گیا تھا اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی شخص کو آئین شکنی کے جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔
بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ ) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو کالعدم قرار دے دیا، اس کے ساتھ ہی خصوصی عدالت کی کارروائی بھی کالعدم ہوگئی۔
سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔