پاکستان میں ’سیسیلین مافیا‘ کا لفظ پانامہ کیس کے تاریخی فیصلے کے بعد عام ہوا تھا، لیکن ہفتے کی صبح وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیانات میں ایک مرتبہ پھر ’سیسیلین مافیا‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے حزب مخالف کی جماعت مسلم لیگ ن پر چوٹ کی، جس کی جانب سے حال ہی میں احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی ایک متنازع ویڈیو جاری کی گئی ہے۔
اپنے پیغام میں عمران خان نے کہا: ’اٹلی کی سیسیلین مافیا کی طرح پاکستانی مافیا بھی بیرون ملک منتقل کیے گئے اربوں روپے بچانے اور عدلیہ و ریاستی اداروں پر دباؤ ڈالنے کے لیے رشوت، دھونس، بلیک میلنگ اور بھیک جیسے حربے استعمال کرتا ہے۔‘
In a similar vein to the "Sicilian mafia", the Pakistani mafia uses tactics of bribe, threat, blackmail and begging to pressurise state institutions and judiciary in order to protect their billions of money laundering stashed abroad.https://t.co/DcXWNZntq3
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) July 13, 2019
اس ٹویٹ کے جواب میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے بھی ٹویٹ کی، جس میں انہوں نے وزیر اعظم عمران خان پر الزامات لگائے۔
You’re a part of the mafia that pressurises judges into targeting & punishing your political opponents. It is you who used the institutions to settle scores with your opponents & defaced & maligned them in the process. Shame on you. https://t.co/tRgTAdv2DM
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) July 13, 2019
وزیر اعظم عمران خان اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف کی ٹویٹس کے بعد ٹوئٹر پر تبصروں کی بھرمار شروع ہو گئی اور اس حوالے سے کچھ ہیش ٹیگز بھی ٹرینڈ کر رہے ہیں۔
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
تجزیہ کاروں کے خیال میں وزیر اعظم عمران خان کا ٹوئٹر پیغام نہ صرف ’غیر ضروری‘ بلکہ ’غیر ذمہ دارانہ‘ تھا اور اس سے مسائل میں اضافے کے علاوہ حکومت کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
سینئیر صحافی ایم ضیاء الدین کے خیال میں پاکستانی حکمرانوں کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ کتنی نازک اور خطرناک صورت حال ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’حکمرانوں اور ان کے پیچھے کھڑے ہونے والوں کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح حکومت کو بچایا جائے۔ دوسری جانب شاید مسلم لیگ ن کو بھی اندازہ نہیں کہ وہ کتنی خطرنا جنگ لڑ رہی ہے۔ انہیں بہت زیادہ احتیاط کرنا ہو گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر سابق جج پر لگائے گئے الزامات صحیح ثابت ہو جاتے ہیں تو اس سے بہت بڑے مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔
تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’وزیر اعظم عمران خان کا طریقہ یہی ہے۔ وہ اکثر غیر ذمہ دارانہ بیانات دیتے ہیں اور اپنے اور حکومت کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’بار بار سیسیلین مافیا کا ذکر کرکے اعلیٰ عدلیہ اور خصوصاً موجودہ چیف جسٹس کو بھی ایک عجیب سی صورت حال سے دوچار کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ایسے بیانات ملکی سیاست میں صرف غیر ضروری تناؤ بڑھانے کی وجہ بنتے ہیں۔‘
رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق: ’ایسے معاملات پر وزیر اعظم کو بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ کام وزیروں اور مشیروں سے لیا جا سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لندن سے نکلنے والے اخبار فنانشل ٹائمز کے پاکستان میں نمائندے فرحان بخاری کچھ مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق: ’دراصل حزب اختلاف حکومت کو اس مسئلے میں کھینچ رہی ہے تاکہ یہ تاثر مل سکے کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اصل مسئلہ پاکستان میں اداروں کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ ہے۔ جس کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔‘
دوسری جانب صحافیوں اور میڈیا کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں سابق جج ارشد ملک کے تنازع کو اپنے سیاسی مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ حکومت نے اس مسئلے پر کئی مرتبہ موقف تبدیل کیا ہے اور لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی ٹوئیٹس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’جہاں حکومت کو اس مسئلے میں سیاسی فائدہ نظر آتا ہے۔ وہ اس کو استعمال کرتی ہے۔‘
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے چند روز قبل ایک ویڈیو میڈیا کے سامنے جاری کی تھی، جس میں احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک العزیزیہ کرپشن کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو مبینہ طور پر دباؤ کے تحت سزا دینے کا اعتراف کرتے نظر آئے تھے، جس کے بعد ارشد ملک سے عدلیہ سے متعلق ذمہ داریاں واپس لے لی گئیں۔
تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان حلفی میں ارشد ملک نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے دیگر رہنماؤں پر انہیں رشوت کی پیشکش کرنے کے الزامات لگائے تھے۔
سیسیلین مافیا کیا ہے؟
اٹلی کے شہر سسلی میں مجرموں کے کئی گروہوں نے مل کر مشترکہ تنظیمی ڈھانچے اور ضابطہ اخلاق کی بنیاد پر ایک تنظیم قائم کر رکھی ہے، جسے سیسیلین مافیا کہا جاتا ہے۔
سیسلین مافیا اور اس میں شامل تمام گروہوں کا مشترکہ مقصد مجرمانہ سرگرمیاں کرنا ہے۔
سیسیلین مافیا کی طرز پر دنیا کے کئی ملکوں میں مجرموں کے گروہوں نے ایسی تنظیمیں قائم کی ہیں، جو زیر زمین رہ کر مجرمانہ کاروائیاں کرتی ہیں۔
پاکستانی سیاست میں سیسیلین مافیا کا ذکر اس وقت عام ہوا جب پانامہ کیس کے فیصلے میں موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاکستان میں غیر قانونی طریقوں سے دولت کمانے والوں اور اسے بیرون ملک منتقل کرنے والوں کو سیسیلین مافیا سے تعبیر کیا تھا۔