انڈین حکومت اپنی قومی شاہراہوں سے ٹول پلازوں کو ہٹانے کے منصوبے پر پیش رفت کررہی ہے۔
انڈین میڈیا کے مطابق ان ٹول پلازوں کی بجائے حکومت خودکار نمبر پلیٹ ریڈر کیمروں پر انحصار کرے گی، جس میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں پڑھی جائیں گی اور گاڑیوں کے مالکان کے بینک اکاؤنٹس سے خود بخود ٹول کی رقم کاٹ لی جائے گی۔
انڈیا میں ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے وزیر نتن گڈکری نے کہا کہ اس سکیم کا ایک پائلٹ پراجیکٹ جاری ہے اورسسٹم کی اس منتقلی کو آسان بنانے کے لیے قانونی ترامیم بھی پیش کی جارہی ہیں۔
نتن گڈکری نے انڈین ایکسپریس کو بتایا:’2019 میں ہم نے ایک اصول بنایا تھا کہ کاریں کمپنی کی نصب کردہ نمبر پلیٹوں کے ساتھ آئیں گی۔ چنانچہ گذشتہ چار برسوں میں آنے والی گاڑیوں میں مختلف نمبر پلیٹیں ہیں۔
اب ٹول پلازوں کو ہٹا کر کیمرے لگانے کا منصوبہ ہے جس میں یہ نمبر پلیٹیں پڑھی جائیں گی اور بینک اکاؤنٹ سے براہ راست ٹول کاٹا جائے گا۔ ہم اس سکیم کا پائلٹ بھی کر رہے ہیں۔
’تاہم، ایک مسئلہ ہے - ٹول پلازہ کو چھوڑنے اور ادائیگی نہ کرنے والی گاڑی کے مالک کو قانون کے تحت سزا دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ہمیں اس چھوٹ کو قانون کے تحت لانے کی ضرورت ہے۔ ہم ان کاروں کے لیے ایک یہ سہولت فراہم کرسکتے ہیں کہ جن کے پاس یہ نمبر پلیٹیں نہیں وہ انہیں ایک مخصوص مدت کے اندر نصب کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس کے لیے ایک بل لانا پڑے گا۔‘
اس وقت تقریبا 40 ہزار کروڑ روپے کے کل ٹول کلیکشن کا تقریبا 97 فیصد ایف اے ایس ٹیگز سے ہوتا ہے۔ بقیہ تین فیصد ایف اے ایس ٹیگز استعمال نہ کرنے پرعام ٹول ریٹ سے زیادہ پیسے ادا کرتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایف اے ایس ٹیگز کے ساتھ، ٹول پلازہ عبور کرنے میں فی گاڑی تقریبا 47 سیکنڈز لگتے ہیں۔ الیکٹرونک ٹول کلیکشن لین کے ذریعے فی گھنٹہ 260 سے زائد گاڑیوں سے ٹول لیا جا سکتا ہے جبکہ دستی ٹول کلیکشن کے ذریعے فی گھنٹہ 112 گاڑیوں سے ٹول لیا جاتا ہے۔
اگرچہ ایف اے ایس ٹیگز کے استعمال سے ملک بھر کے ٹول پلازوں پر ٹریفک کی روانی میں آسانی پیدا ہوئی ہے لیکن اب بھی رش کی اطلاع ہے کیونکہ ٹول گیٹس عبور کرنے کے لیے توثیق کی ضرورت ہے۔
16 فروری 2021 سے لازمی قرار دیئے گئے ایف اے ایس ٹیگز کے ساتھ کچھ مسائل ہیں، جیسسا کہ، کم بیلنس والے صارفین فیس پلازہ لین میں آتے ہیں، جس کے نتیجے میں بالآخر پروسیسنگ کا وقت بڑھ جاتا ہے۔
اس کے علاوہ دوردراز پلازوں پر انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کے مسائل کی وجہ سے پلازہ سرورز کے ذریعہ کم بیلنس والے ایف اے ایس ٹیگز کے سٹیٹس کو وقت پر فعال ایف اے ایس ٹیگز میں اپ ڈیٹ نہیں کیا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ریڈیو فریکوئنسی آئیڈینٹیفکیشن (آر ایف آئی ڈی) ریڈر اور ٹیگز کا گھسنا اور صارفین کی طرف سے نامناسب انداز میں چسپاں کیے گئے ایف اے ایس ٹیگز بھی ان مسائل میں شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نمبر پلیٹ ریڈر کیمروں کے استعمال کے ساتھ، جسے آٹومیٹک نمبر پلیٹ ریڈر (اے این پی آر) کیمرے بھی کہا جاتا ہے، ٹول پلازوں پر رش میں مزید کمی کا امکان ہے، لیکن زیادہ تر انحصار اس نظام کے نفاذ پر ہوگا۔
صنعت کے ایک فرد نے شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر کہا کہ اس نظام کو فول پروف بنانے اور کسی بھی خامی سے بچانے کے لیے ایک سے زیادہ ٹیکنالوجیز کی ضرورت ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ اے این پی آر کیمرا نمبر پلیٹ کے نو نمبرز پڑھ سکتا ہے اور اگر اس سے آگے کچھ ہے، جیسے نمبر پلیٹوں پر کچھ لکھا ہوا ہے جو ہم عام طور پر ملک کی زیادہ تر گاڑیوں میں دیکھتے ہیں، ایسی چیز کو کیمرا نہیں پڑھے گا۔
انہوں نے مزید کہا تجرنے سے پتا چلا ہے کہ کیمرا تقریبا 10 فیصد نمبر پلیٹوں کو نہیں پڑھ سکا کیوں کہ ان پر نو سے زیادہ الفاظ درج تھے۔ ایف اے ایس ٹیگ اور جی پی ایس ٹول کے ساتھ نئے پراجیکٹس پر بھی اس طرح کے سسٹم نافذ کیے جا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا:’انڈیا جیسے ملک میں محصولات کے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے ہمیں ایک سے زیادہ سسٹمز کی ضرورت ہوگی۔‘