کرکٹ کے حالیہ عالمی کپ پر اپنا آخری کالم لکھتے ہوئے دل اداس ہے کہ انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ کام کرنے کا یہ پرلطف تجربہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے جس دوران میں جو سچ سمجھتی تھی مجھے وہ لکھنے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا آزادی کے ساتھ اظہار کا موقع ملا۔ میرے لیے یہ بہت شاندار تجربہ رہا۔
آج یہ تحریر لکھتے ہوئے میں کچھ جذباتی ہو رہی ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ حقیقی صحافی کے کام کا تقاضہ ہے کہ وہ خوف اور لالچ سے آزاد ہو کر سچ لکھے، اس کے لیے بڑا حوصلے اور پیشے کے ساتھ مکمل وابستگی اور لگاؤ کی ضروری ہوتی ہے۔ جو کچھ میں نے لکھا اس کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے مشہورشاعر مصطفی زیدی کے ’اہل قلم‘ مصنفین، صحافیوں اور شعرا کے لیے لکھے دو اشعار یاد آ رہے ہیں، جن میں انہوں نے کہا کہ قلم کو تلوار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے:
زمانہ یوں تو ہر اک پرنظر نہیں کرتا
قلم کی بے ادبی پر در گزر نہیں کرتا
جو آسمان کو نیچا دکھا سکے وہ آئے
جو اپنے آپ سے آنکھیں لڑا سکے وہ آئے
مجھے امید ہے کہ ان اشعار کی روح کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے اپنے پیشے سے دیانت داری کے ساتھ انصاف کیا اور جو حقائق سامنے آئے وہ بلا خوف و خطر پیش کر دیے جو قارئین نے پسند بھی کیے۔
تاہم اس وقت ٹورنامنٹ کے آج کھیلے جانے والے اہم ترین میچ یعنی فائنل کا ’کرٹن ریزر‘ لکھنے کی ذمہ داری سامنے ہے جو مجھے ادا کرنی ہے۔ اس میچ میں فیصلہ ہو گا کہ اگلے چار سال کے لیے کرکٹ کا عالمی چیمپیئن کون ہو گا۔
اس فائنل میچ میں جو دو ٹیمیں آمنے سامنے ہیں وہ میزبان انگلینڈ اور’جائنٹ کلرز‘ نیوزی لینڈ ہیں۔ کیویز نے سیمی فائنل میں بھارت کوشکست دی۔ بھارتی ٹیم اور ان کا میڈیا ٹورنامنٹ شروع ہونے سےپہلے ہی خود کو عالمی چیمپیئن سمجھ بیٹھا تھا۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم سے میں نہ صرف اس لیے خوش ہوں کہ اس نے بھارت کو ہرایا بلکہ مجھے عمومی زندگی میں کسی بھی شعبے میں غرور اور اکڑبازی سخت ناپسند ہے۔
میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ پھل دار درخت ہمیشہ جھکا ہوا ہوتا ہے۔ نیوزی لینڈ نے جب بھارت کو سخت مقابلے کے بعد شکست دی تومجھے محسوس ہوا کہ اس ملک کے لوگوں کی اب میں زیادہ عزت کرنے لگی ہوں۔
دوسری طرف میزبان انگلینڈ کی ٹیم ہے جو کرکٹ کا بانی ملک ہے اور1975 میں جب سے کرکٹ کا ورلڈ کپ شروع ہوا اس وقت سے لے کر اب تک یعنی 2019 تک12 مرتبہ منعقد ہونے والے ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں انگلینڈ ایک بار بھی نہیں جیت سکا۔
27 سال قبل 1992 میں انگلینڈ آخری مرتبہ میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں فائنل میں پہنچا تھا تو پاکستان نے اسے ہرا کر ٹورنامنٹ جیت لیا تھا۔ اس لیے اس بار انگلینڈ کی ٹیم کیویز کو ہرا کر عالمی کپ جیتنے کے لیے پرامید ہے تاکہ میگا ایونٹ نہ جیت سکنے کا دھبہ تو کم از کم مٹ جائے۔
فائنل میچ لارڈز کے تاریخی میدان پر منعقد ہو رہا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ میدان تاریخی طور پر مہمانوں کے لیے مہربان ثابت ہوتا رہا ہے اس لیے کیویز کی امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ تاہم انہیں اس بار بہت مضبوط انگلش ٹیم کا سامنا ہے جس نے گذشتہ چار سال میں بہترین کرکٹ کھیلی۔ انہوں نے ایک روایتی سست ٹیم کو ایک جارحانہ ٹیم میں ڈھال لیا ہے۔ جیسن رائے، جونی بیرسٹو، بین سٹوکس اور جوز بٹلر جیسے مضبوط بلے باز ان کی ٹیم کا حصہ ہیں۔
ان کے بولر بھی اپنے بلے بازوں کے ہم پلہ ہیں۔ ان کے پاس مارک ووڈ اور جوفرا آرچر جیسے کامیاب بولر ہیں اور ان کی معاونت کے لیے بہت زیادہ ’انڈر ریٹڈ‘ کرس وکس ہیں جو بہت محنتی ہیں اور 2019 کے ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے لیے نہایت اہمیت کے حامل رہے ہیں۔
ان تین تیز بولروں کے علاوہ انگلینڈ کے پاس بین سٹوکس جیسے آل راؤنڈر اور عادل رشید جیسے باکمال لیگ سپنر ہیں۔ یہ بہت باصلاحیت اٹیک ہے اور اس طرح میزبان ٹیم ایک جامع پیکج ہے۔ انہیں شکست سے دوچار کرنا آسان نہیں، بلکہ بہت مشکل ہے۔ تاہم یہ بھی نہیں ہے کہ یہ ناممکن ہو۔
دیکھتے ہیں کیویز کس طرح انگلش ٹیم کو آج زیر کرتے ہیں۔ میرے کالم کے قارئین جانتے ہیں کہ میں ٹاس جیتنے والی ٹیم کی طرف سے پہلے بیٹنگ کرنے کی قائل ہوں۔ ٹورنامنٹ کے اس سب سے بڑے میچ میں ’چیز‘ کرنے کا دباؤ کیوں لیا جائے۔
اگر کیویز ٹاس جیتیں تو انہیں پہلے بیٹنگ کا انتخاب کرنا چاہیے اور بالکل اسی طرح پچ کا اندازہ لگانا چاہئے، جیسا راس ٹیلر اور کین ولیم سن نے بھارت کے خلاف لگایا تھا۔ اولڈ ٹریفورڈ کے میدان کی صورتحال کے پیش نظر راس ٹیلر اور ان کے کپتان نے اندازہ لگایا تھا کہ یہاں 240 کا سکور اچھا ٹوٹل ہے۔ اسی طرح انہیں اندازہ لگانا ہو گا کہ کتنا سکور لارڈز کے گراؤنڈ پر کافی ہو گا۔
میرا اندازہ ہے کہ لارڈز میں280 رنز اچھا سکور ہو گا کیونکہ جو کچھ سننے میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ پچ کچھ خشک اور ’ڈبل پیس‘ ہو گی۔ اگر پچ ایجبسٹن کی طرح بیٹنگ فرینڈلی ہوئی تو مخالف ٹیم اور ان کے کھلاڑیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہاں شاید 310 کا سکور کرنا ضروری ہو گا۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ایک بار پھر راس ٹیلر اور ولیم سن کو اچھی پارٹنر شپ قائم کرنا پڑے گی اور نیشم، لیتھمز اور ڈی گرینڈ ہومز کو بھی ان کا ساتھ دیتے ہوئے سکور کو وہاں پہنچانا ہو گا جہاں بولرجارحانہ انگلش بلے بازوں کے سامنے سکور کا دفاع کرسکیں۔ انگلش اوپننگ جوڑی رائے اور بیرسٹو بہت اہمیت کی حامل ہو گی کیونکہ یہ دونوں بہت تباہ کن فارم میں ہیں۔ رائے ایک مشین کی طرح میدان کے چاروں طرف شاٹس کھیل رہے ہیں اور بیرسٹو پہلے ہی دو سنچریاں بنا کر اپنی کلاس دکھا چکے ہیں۔
تمام لوگ جانتے ہیں کہ جوس بٹلر جس دن چل جائیں اس دن تباہ کن ہوتے ہیں۔ جو روٹ انگلینڈ کی بیٹنگ کے بنیادی ستون کے طور پر کھیل رہے ہیں اور ان کے علاوہ بن سٹوکس پورے ٹورنامنٹ میں بہت سمجھ داری سے بیٹنگ کرتے آ رہے ہیں جس کے نتیجے میں اچھا سکور بنتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیویز کے پاس انگلش بیٹنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے اچھے بولرز کی کمی نہیں ہے۔
ٹرینٹ بولٹ نے ثابت کیا ہے کہ وہ اس پورے ٹورنامنٹ کے سب سے ذہین بولر ہیں۔ انہوں نے وراٹ کوہلی جیسے بلے بازوں کو ’چکمہ‘ دے کر آؤٹ کیا۔ اس سطح کے بلے بازوں پر چھا جانا آسان نہیں ہوتا۔ میٹ ہینری نے ان کا ساتھ خوب نبھایا اور سیمی فائنل کی فتح کا سہرا ان کے سر رہا۔
اس کے علاوہ ان کے پاس لوکی فرگوسن جیسے بولر ہیں جو خطرناک باؤنسر مار سکتے ہیں اور 150کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کرا سکتے ہیں۔ اس لیے انگلینڈ کومحتاط رہنا پڑے گا۔
میرے پاس ولیم سن کے لے ایک مشورہ ہے کہ انگلینڈ کے بلے بازوں خصوصا رائے اور ان کے کپتان مورگن کے خلاف فرگوسن کے باؤنسر مؤثر اور خطرناک ہو سکتے ہیں۔ میری یہ بھی تجویز ہو گی کہ کیوی کپتان آف سائیڈ فیلڈ کو مکمل ’پیک‘ کریں تاکہ رائے اور مورگن کی ڈرائیو شاٹس کو روکا جا ئے اور ان کو فرسٹ ریٹ کر کے ان کی وکٹ جلد حاصل کرنے کے لیے شارٹ گیندیں کرائیں کیونکہ رائے کا وکٹ پر موجود رہنا خطرناک ہو سکتا ہے۔
ایک اور حربہ سپنر مچل سینٹنر سے آغاز کرانا بھی ہو سکتا ہے جو رائے اور بیرسٹو کو بولنگ کرائیں۔ اگر وکٹ بالکل ویسی ہی خشک ہے جیسا کہا جا رہا ہے تو انگلش بلے باز سپنروں کے سامنے مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔ پاکستان نے شاداب کو استعمال کرکے رائے کو جلد آؤٹ کر لیا تھا اور اس طرح ایک مشکل میچ بھی جیتا۔
میں نے کہا تھا کہ نیوزی لینڈ اگر ٹاس جیتے تو اچھا ہے لیکن اگر انگلینڈ ٹاس جیت جاتا ہے تو انہیں بھی پہلے بیٹنگ کرنا چاہیے اور سکور کے تعاقب کرنے کا دباؤ مخالف ٹیم پر ڈالنا چاہیے۔ اگرانگلینڈ 280 سکور کر لیتا ہے تو پھر کیویز کے لیے آسان نہیں ہو گا کہ وہ شاندار انگلش بولنگ کے سامنے یہ سکور بنا سکیں۔
خصوصا ایسی صورت حال میں جب نیوزی لینڈ کے اوپننگ بلے باز مارٹن گپٹل اور ہاروے نکلس فارم میں نہیں۔
بدقسمتی سے ٹاس بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن 100 اوورز کے دوران اچھا کھیل پیش کرنا ٹاس سے بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ کرکٹ مسقتل مزاجی کا نام ہے۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ جس بھی ٹیم کی بولنگ نے بہتر کارکردگی دکھائی اور پہلے پندرہ اوورز میں تین سے چار وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی، وہی ٹیم جیت جائے گی۔
دونوں ٹیموں کی بولنگ باصلاحیت ہے اب دیکھنے کی بات ہے کہ کون سی ٹیم اپنی صلاحیتوں کو وکٹ حاصل کرنے کے لیے بہتر طور پر استعمال کر پاتی ہے۔
سب سے اچھی بات یہ ہے کہ جو بھی ٹیم جیتے، کرکٹ کے چیمپیئن کا تاج نئی ٹیم کے سر پر سجے گا۔ اس سے کرکٹ کے کھیل کو بہت فائدہ ہو گا۔
میں اپنے کالم کو عام طور پر کہی جانے والی اس بات پرختم کروں گی کہ آج جو بھی ٹیم کامیاب ہو اصل جیت کرکٹ کی ہو گی کیونکہ 2023 تک ایک نئی ٹیم کے سر پر عالمی چیمپیئن کا تاج ہو گا جس سے بہتر کچھ اور نہیں ہو سکتا۔