واشنگٹن میں برطانیہ کے سابق سفیر نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کے ساتھ تاریخی جوہری معاہدے کو ختم کرنے کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ اپنے پیش رو براک اوباما کو نیچا دکھانا تھا۔
سابق برطانوی سفیر سر کِم ڈارک کے لیک ہونے والے سفارتی میمو کے، جس کے بارے میں ’دی میل‘ نے اتوار کو رپورٹ شائع کی ہے، مطابق سر کِم کا دعویٰ ہے کہ امریکی صدر کے اعمال ’سفارتی تباہی‘ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جبکہ ان کے بیشتر فیصلے ذاتی وجوہات کی بِنا پر کیے گئے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ برطانوی سفیر نے یہ تبصرے مئی 2018 میں اس وقت کیے جب بورس جانسن، جو اس وقت برطانیہ کے وزیر خارجہ تھے، وائٹ ہاؤس کے ناکام دورے کے دوران ایران کے ساتھ طے پانے والے ’جائنٹ کمپری ہنسیو پلین آف ایکشن‘ کے حوالے سے صدر ٹرمپ کا ذہن تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے تھے۔
دی سنڈے ٹائمز کے مطابق یہ تازہ ترین انکشافات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پولیس نے میمو لیک میں ملوث ایک مشتبہ شخص کی شناخت کر لی ہے۔
اس سے چند گھنٹے قبل، بورس جانسن اور ٹوری قیادت کے حریف جیریمی ہنٹ کی جانب سے میٹروپولیٹن پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر نیل باسو کے اُس بیان پر تنقید کی گئی، جس میں انہوں نے صحافیوں کو خبردار کیا تھا کہ میمو کی اشاعت کرنے والوں کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
میٹروپولیٹن پولیس کے اہلکار نے کہا تھا کہ سرکاری ای میل افشا کرنا ایک ’مجرمانہ معاملہ‘ ہوسکتا ہے جو عوامی مفاد میں نہیں ہے اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی ممکنہ خلاف ورزی کے تناظر میں پولیس کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
اس کے ردعمل میں جیریمی ہنٹ کا کہنا تھا: ’اگر میڈیا یہ انکشافات حاصل کرلے اور یہ فیصلہ کرلے کہ اس کی اشاعت عوامی مفاد میں ہے، تو وہ پریس کی آزادی کے حق کا دفاع کریں گے۔‘
دوسری جانب جانسن نے بھی میڈیا کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’پراسیکیوشن کا عمل پریس کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے اور یہ عوامی بحث پر خوفناک اثرات مرتب کرے گا۔‘
دی میل کے مطابق گذشتہ سال 8 مئی کو جانسن کی لندن روانگی کے فوری بعد ڈاؤننگ سٹریٹ کو بھیجے گئے اس میمو میں سر کِم نے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کا یہ طرزِ عمل سفارتی تباہی پر مبنی تھا، جس کی وجوہات غالباً نظریاتی اور ذاتی تھیں۔ یہ شاید اس لیے تھا کہ ٹرمپ اسے اوباما کا معاہدہ سمجھ رہے تھے۔
برطانوی سفیر کے خیال میں اس معاملے میں ٹرمپ کے قریب ترین مشیروں کے درمیان اختلاف پایا جا رہا تھا جیسا کہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو خود کو اس معاملے سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ وائٹ ہاؤس کے پاس ایران کے ساتھ معاہدے سے نکلنے کے بعد آئندہ کی حکمت عملی کا فقدان تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سر کِم نے مزید کہا کہ وزیر خارجہ پومپیو، نائب صدر مائیک پینس اور نہ ہی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اس بات کو واضح کر پارہے تھے کہ صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں کیے گئے وعدوں کے برعکس کیوں اس معاہدے سے نکلنا چاہتے تھے۔
معاہدے کی شرائط کے تحت، جن کو اب تک برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی حمایت حاصل ہے، ایٹمی پروگرام پر پیش رفت روکنے کے بدلے ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی برتی گئی تھی۔
اس سے اگلے روز لندن بھیجی گئی کیبل میں سابق سفیر نے مبینہ طور پر یہ لکھا کہ ’ایران کی حکومت کو ’قاتل حکومت‘ قرار دینے کے کاٹ دار بیان کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی ایٹمی پابندیوں کو بحال کرنے کے لے صدارتی یادداشت پر دستخط کر دیے ہیں۔‘
سر کِم نے بدھ کے روز دی میل کی جانب سے شائع کردہ دستاویزات کے ایک ہفتے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ دی میل کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو ’غیر فعال‘ اور ’نا لائق‘ قرار دیا ہے۔
ادھر صدر ٹرمپ نے برطانوی سفیر پر برستے ہوئے اپنی ٹویٹس میں کہا کہ ’واشنگٹن ان (سر کِم) کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھے گا اور ان کو ملک کے اندر پسند کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔‘
سر کِم نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے ان کی سرزنش کیے جانے کے بعد ان کے لیے (بطور سفیر) اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔
یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ منگل کے روز اُسی وقت کرلیا تھا جب ٹیلی ویژن پر ہونے والی ایک بحث کے دوران مسٹر جانسن نے ان کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔
© The Independent