صوبہ خیبر پختونخوا میں سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں خواتین کی ایک بڑی تعداد سرکاری امدادی کیمپوں میں منتقل ہو چکی ہے لیکن کئی خواتین ابھی تک موٹروے اور دیگر شاہراہوں کے قریب خیمہ زن ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اتوار کو چارسدہ کے قریب موٹر وے پر لگائے گئے تقریباً 100 عارضی ٹھکانوں خواتین سے ان کے مسائل جاننے کی کوشش کی ہے۔
موٹروے پر جہاں سیلاب زدگان خیمہ زن ہیں وہاں نہ تو گھنے درخت ہیں اور نہ ایسی کوئی ایسی جگہ جہاں خواتین الگ بیٹھ کر آرام کر سکیں یا باتھ روم استعمال کر سکیں۔
جب ان خواتین سے پوچھا گیا کہ ایسے حالات میں کہ موٹر وے پر نہ بیت الخلا ہیں اور نہ ہی سر پر چھت اور کوئی محفوظ پناہ گاہ تو وہ اس دشواری کا مقابلہ کیسے کر رہی ہیں؟
اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ یہاں بیت الخلا نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ رات ہونے کا انتظار کرتی ہیں تاہم رات کو انہیں الگ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایک خاتون نے بتایا: ’ہمیں مسلسل بے آرامی کا سامنا ہے۔ ساری رات خوف کے مارے نیند نہیں آتی۔ ہمیں اپنی عزت نفس کے مجروح ہونے کا خوف رہتا ہے جبکہ حادثوں کا ڈر الگ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تمام سیلاب زدگان کو مناسب ٹینٹس کی سہولت دستیاب نہیں۔ حبس اور دھوپ انتہا کی ہے۔ بیٹھنے کے لیے کوئی دری نہیں۔ سر چھپانے کے لیے کوئی سایہ نہیں۔ ہم نے اپنے دوپٹے لٹکا کر اس سے خیمے بنائے ہوئے ہیں۔‘
دوسری جانب ضلعی انتظامیہ پشاور اور نوشہرہ نے متاثرین کے نام پیغام میں کہا کہ وہ کسی سڑک کنارے قیام نہ کریں بلکہ جو کیمپ حکومت نے ان کے لیے مختص کیے ہیں وہاں منتقل ہو جائیں۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر پشاور ڈاکٹر محمد احتشام الحق کا کہنا ہے کہ ’ان لوگوں کو بہت جلد اس مقام سے ہٹا کر کیمپس میں منتقل کر دیا جائے گا کیونکہ اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ موٹر وے کو اپنا کیمپ بنا لیں۔
’ہم ان کیمپس میں انسانوں کی خوراک سے لے کر جانوروں کے چارے تک سب کچھ فراہم کر رہے ہیں۔‘