براہموس میزائل کی انکوائری رپورٹ: پاکستانی ماہرین ناخوش، انڈیا مطمئن

’یہ غلطی اگر پاکستان سے ہوئی ہوتی تو پاکستان اس وقت پابندیوں کی زد میں ہوتا۔ انڈیا ایک ایٹمی ریاست ہے، اور اس طرح کی غلطی سے بہت بڑی تباہی ہو سکتی ہے۔‘

2014 میں انڈیا کے یومِ جمہوریہ کے موقعے پر براہموس میزائل کی نمائش (اے ایف پی)

رواں سال نو مارچ کو انڈیا کا براہموس میزائل پاکستان کے علاقے میاں چنوں میں گرا جس کے نتیجے میں سویلین آبادی کا مالی نقصان ہوا۔  یہ بات بہت حیران کن تھی کہ میزائل یہاں کیوں اور کیسے آیا کیوں کہ پاکستان اور انڈیا دونوں ایٹمی قوتیں ہیں اور ایک ذرا سی غفلت سے پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔

براہموس ایک سپر سانک میزائل ہے جو روسی ساختہ ہے اس کو انڈیا کی نیوی، ایئرفورس اور آرمی تینوں استعمال کرتے ہیں۔ اب اس کو انڈیا میں بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ براہموس کو زمین سے زمین، فضا سے زمین اور سمندر سے فائر کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی حد رفتار 2.8 سے تین ماک ہے (ایک ماک = 1225 کلومیٹر فی گھنٹہ)۔ یہ 290 سے چار سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر سکتا ہے۔

انڈیا گذشتہ کچھ عرصے سخوئی 30 جہاز سے اس کے تجربے کر رہا ہے۔ جو میزائل پاکستان کی طرف آیا وہ ہریانہ کی سرسا ایئر بیس سے فائر ہوا۔ اب اس حادثے کے حوالے انکوائری رپورٹ آئی ہے جس پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستانی دفاعی حلقے بھی اس سے مطمئن نہیں ہیں اور اس پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

انڈیا کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ، سکیورٹی پروٹوکول اور سیفٹی اور ہتھیاروں کی حفاظت کے نظام پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ پاکستان انڈیا کی کورٹ آف انکوائری کو ناقص قرار دے چکا ہے۔ انڈیا نے پہلی پریس کانفرنس میں کہا تھا اس میں فنی خرابی ہوئی جب کہ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ ایس او پیز پر عمل نہیں ہوا۔ 

جنرل ر ہارون اسلم کہتے ہیں کہ انڈیا یہ کہتا ہے کہ یہ حادثاتی طور پر فائر ہو گیا تھا یہ بہت الارمنگ بات ہے۔ یہ غلطی اگر پاکستان سے ہوئی ہوتی تو پاکستان اس وقت پابندیوں کی زد میں ہوتا۔ انڈیا ایک ایٹمی ریاست ہے، اور اس طرح کی غلطی سے بہت بڑی تباہی ہو سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انڈیا کی میزائل سیفٹی کمزور ہے، براہموس حادثاتی طور پر فائر نہیں ہوا وہ ہمارا رسپانس دیکھ کر نتائج اخذ کرنا چاہتے تھے۔

جنرل ر امجد شعیب کہتے ہیں کہ براہموس میزائل کے مس فائر کی انکوائری صرف انڈیا نے نہیں کرنی تھی بلکہ یہ مشترکہ ہونی چاہیے تھی۔ انڈیا اس پر نہیں تیار ہوا۔ انڈیا نے کہا یہ غلطی سے فائر ہوا ہے لیکن اس پر انڈیا نے کوئی خاص وضاحت نہیں دی۔ جن لوگوں نے یہ کیا وہ کون تھے ہائی لیول پر تھے یا ٹیکنیکل عملے کی غفلت تھی۔ اگر میزائل کے ساتھ وار ہیڈ بھی ہوتا تو یہاں تو بہت تباہی ہو جاتی۔ اس کا مطلب یہ ہی ہے کہ انڈیا کا نیوکلئیر سسٹم میزائل سسٹم محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہے، اس کے ساتھ وہاں یورینیئم کی چوری پر بھی عروج پر ہے۔

بریگیڈیئر باسط شجاع کہتے ہیں کہ براہموس ایک سٹریٹیجک ہتھیار ہے اور انڈیا ہمیشہ پاکستان پر محدود سرجیکل سٹرائیک کا خواہاں رہا ہے، ہم نے چھبیس فروری کو بھرپور رسپانس دیا تھا تاکہ انڈیا کو پتہ ہو کسی بھی قسم کی جارحیت کا جواب آئے گا۔ اس کیس میں وہ نہیں دیکھا گیا۔

بریگیڈیئر ڈاکٹر احمد مہناس کہتے ہیں یہ اس لیے کیا گیا تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کروز میزائل آنے پر پاکستان کیا ردعمل دیتا ہے۔ پاکستان کی سرحد پر کیا ردعمل ہو گا اور ریڈار اس کو دیکھ پائیں گے یا نہیں۔ پاکستان نے کہا تھا کہ جوائنٹ انکوائری کی جائے لیکن انڈیا نہیں مانا۔ میں تو اس انکوائری رپورٹ سے مطمئن نہیں ہوں۔ پاکستان نے معاملہ پر سنجیدگی دکھائی لیکن ون سائیڈ انکوائری اور اس سے ملنے والی سزا سے پاکستان مطمئن نہیں۔ ایک تھرڈ پارٹی کو اس کو حادثے کی تحقیقات کرنا چاہیے تھی کیونکہ میرے نزدیک انڈیا کا میزائل کا کمانڈ کنڑول سسٹم ٹھیک طرح کام نہیں کر رہا۔

اس کے برعکس انڈیا کے دفاعی تجزیہ نگار اپنے میزائل سسٹم کو محفوظ کہتے ہیں اور وہ انکوائری رپورٹ سے مطمئن بھی ہیں۔ کرنل ر شیلندر سنگھ انڈیا کے دفاعی تجزیہ نگار ہیں۔ وہ کہتے ہیں براہموس انڈیا کی شان ہے اور یہ انڈیا اور روس کی مشترکہ کاوش ہے۔ وہ کہتے ہیں ’البتہ مس فائر ہونے کی وجہ سے اس کی سیفٹی پر سوالیہ نشان آ گیا کہ وہ مس فائر ہوا یا مس گائڈ ہوا جو پاکستان میں گر گیا۔ ایک میزائل کو جب چھوڑا جاتا ہے تو بہت سی چیزیں غیر یقینی ہوتی ہیں۔ جب ہوا میں ہوتا تو اس پر بہت سے پریشر آ سکتے ہیں اور اس کا رویہ بدل سکتا ہے۔ یہ کبھی نہیں کہا جا سکتا کہ میزائل سو فیصد وہاں لگے گا جہاں کے لیے اس کو ٹارگٹ کیا گیا۔ میزائل اپنا راستہ بھٹک گیا اور افسوسناک طور پر یہ پاکستان چلا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈیا نے اپنی غلطی تسلیم کی، اس لیے اس میں مزید کچھ نہیں دیکھنا چاہیے۔ کرنل ر شیلندر کہتے ہیں یا ٹیکنکل مسئلہ تھا یا اس کو آپریٹ کرنے والے سٹاف کی غلطی تھی۔ اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ وہ اپنے راستے سے بھٹک کر پاکستان گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جو ہماری میزائل کی ڈرلز ہوتی ہیں اس کو چیک کرنے کی اگر اس آپ احتیاط نہیں کریں گے تو غلطی ہو سکتی ہے۔ آپ نے میزائل کو مینٹینس کے لیے نکلا اور اس دوران وہ فائر ہو گیا تو یہ عملے کی غلطی ہے۔ اس میں ٹیکنیکل غلطی سٹاف سے ہوئی ہے جو انکوائری میں ثابت ہوا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے ایسی بہت سی انکوائریز خود بھی کی ہیں اور دیکھی بھی ہیں۔ ہم فیکٹ کو سامنے رکھ کر انکوائری کرتے ہیں، اس میں ماہرین حصہ لیتے ہیں۔ میں انکوائری سے مطمئن ہوں کیونکہ اس کو بورڈ آف افسران کرتے ہیں اس میں غلطی کا احتمال نہیں۔ انڈیا اس کو فلپائن کو ایکسپورٹ کر رہا ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ اس ڈیل پر کوئی اثر پڑے گا۔ ہمارا میزائل سسٹم ورلڈ کلاس ہے۔ انڈیا خود بھی احتیاط کرے گا کہ ان میزائل ٹیکنالوجی پر حرف نہ آئے۔‘

مہیندر سنگھ انڈیا کے دفاعی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب یہ مس فائر ہوا تو اس کی انکوائری کے احکامات آئے تو اس سے ثابت ہوا کہ اس میں انسانی غلطی تھی اور ایس او پیز کو فالو نہیں کیا گیا۔ بھارتی ائیر فورس کے تین اہلکاروں کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔ براہموس میں فنی خرابی نہیں تھی۔ ان تمام لوگوں کے خلاف ایکشن لیا گیا جو اس کے ذمہ دار تھے۔ ہائی لیول افسران نے یہ انکوائری کی اس لیے ہم مطمئن ہیں۔ اس میں ہر چیز کا جائزہ لیا گیا۔‘

اخباری اطلاعات کے مطابق 2023 سے انڈیا فلپائن کو براہموس کی فراہم کرنا شروع کر دے گا۔ اس میں براہموس کا نیول ویریئنٹ شامل ہو گا اور اس میں کروز میزائل کے ساتھ لانچر اور میزائل گائیڈنس سسٹم بھی شامل ہو گا۔ خبررساں ادارے روئٹرز نے اس سال کے شروع میں فلپائن کے وزیرِ دفاع کے حوالے سے خبر دی تھی کہ فلپائن نے انڈیا سے ساڑھے 37 کروڑ ڈالر مالیت کے براہموس میزائل خریدنے کا معاہدہ کر لیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا