بلوچی زبان میں بنی پاکستان کی پہلی فیچر فلم ’دودا‘ دو ستمبر سے سینیما میں نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے، جس کے ہدیت کار عادل بزنجو ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب ملک میں اردو فلمیں مشکل کا شکار ہیں ایک بلوچی زبان کی فلم کی سینیما میں نمائش غیر معمولی قدم معلوم ہوتا ہے۔
فلم ’دودا‘ ایک بلوچ نوجوان کی کہانی ہے، جو باکسر بننا چاہتا ہے۔ یہ اس کے جذبے، جدوجہد اور جوش کی کہانی ہے۔
فلم کے پروڈیوسر عمران ثاقب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ فلم آرٹ کی خاطر بنائی گئی ہے اور کرونا وائرس کی عالمی وبا سے پہلے جب یہ بنائی گئی تھی تو اس وقت اس پر تقریباً سوا کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کراچی کے تین سینیما گھروں میں یہ فلم بلوچی زبان میں پیش کی جائے گی جبکہ باقی ملک میں یہ اردو ڈبنگ کے ساتھ لگے گی۔‘
بقول عمران ثاقب: ’بلوچستان میں ایک ہی سینیما کوئٹہ کینٹ میں ہے اور وہاں چونکہ ابھی شدید بارش کے بعد نظام زندگی مشکلات کا شکار ہے، اس لیے یہ فلم وہاں بعد میں لگائی جائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے وہ متعدد شارٹ فلمیں بلوچی زبان میں بنا چکے ہیں، اس لیے اب ضروری تھا کہ فیچر فلم بنائی جائے کیونکہ بلوچی زبان میں کوئی فیچر فلم سینیما میں آج تک نہیں لگی تھی۔‘
انہوں نے لوگوں سے درخواست کی کہ وہ یہ ’فلم دیکھیں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ مزید فلمیں بھی بناسکیں۔‘
عمران ثاقب نے مزید بتایا کہ ’فلم میں پانچ گانے ہیں جو انہوں نے خود لکھے اور کمپوز کیے ہیں اور اس ضمن میں میلوڈی کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔‘
فلم ’دودا‘ کے ہدایت کار عادل بزنجو کا کہنا ہے کہ ’بلوچی زبان اور بلوچ افراد پاکستان کے سینیما کے منظر سے مکمل غائب تھے۔ انہیں یہاں لانے کے لیے بلوچی زبان میں فلم بنانا ضروری تھا۔‘
’یہ ایک کم بجٹ کی انڈپینڈنٹ فلم ہے، میری مادری زبان بلوچی ہے، اس لیے میں نے اپنی پہلی فلم بلوچی ہی میں بنانے کو ترجیح دی‘۔
عادل بزنجو کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ویژیول سٹڈیز سے فلم گریجویٹ ہیں اور اس سے پہلے کئی مختصر دورانیے کی فلمیں بنا چکے ہیں۔
فلم کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اسے انہوں نے ’لیاری سمیت کراچی کے مختلف علاقوں میں فلمایا ہے جبکہ اس کی کچھ عکس بندی گڈانی میں بھی کی گئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ حقیقت سے قریب فلمیں بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ’یہ فلم کرونا کی عالمی وبا کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی ورنہ 2020 میں ہی پیش کردی جاتی۔‘
عادل کا مزید کہنا تھا کہ ’فلم کے موضوع اور نوعیت کی وجہ سے انہوں نے بالکل نئے اداکاروں کے ساتھ میدان میں اترنے کو ترجیح دی۔‘
بقول عادل: ’ہم نے تو محنت کرلی، اب عوام پر ہے کہ وہ اسے دیکھیں‘۔
اس فلم میں مرکزی کردار کرنے والے شعیب حسن نے بتایا کہ انہوں نے ’فلم میں باکسر کے کردار کے لیے تین ماہ تک باقاعدہ تربیت حاصل کی ہے اور عکاسی کے دوران انہیں بہت زیادہ چوٹیں بھی آئی تھیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ بلوچ ہیں۔ ان کے والد نے ایران سے پاکستان ہجرت کی تھی مگر وہ خود کراچی ہی میں پیدا ہوئے اور اس شہر میں ہی کام کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2014 میں انہوں نے ماڈلنگ شروع کی تھی اور عادل بزنجو سے ایک اشتہار کے دوران ملاقات ہوئی تھی۔
شعیب نے بتایا: ’چونکہ یہ کردار ایک باکسر کا ہے، اس لیے انہوں نے مکے تو بہت کھائے مگر رومانس کا موقع اس فلم میں نہیں ملا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس فلم کی اردو ڈبنگ انہوں نے خود ہی کی ہے۔‘
اس فلم کی ہیروئین لیاری کی رہنے والی ابیلا کرد ہیں، جو نازنین کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ابیلا کا کہنا تھا کہ ’لیاری کی بلوچ لڑکی کا فلم میں کام کرنا آسان فیصلہ نہیں تھا مگر آگے بڑھنے کے لیے کچھ ہمت چاہیے ہی ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ والد کی مخالفت تھیٹر کے لیے بہت زیادہ تھی مگر ’جب ایک بار اس کی اجازت مل گئی تو فلم کے لیے زیادہ مسئلہ نہیں ہوا۔ بس امی نے کہہ دیا تھا کہ تم ڈانس نہیں کرو گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’فلم میں زیادہ رومانس نہیں ہے، ایک دو گانے ہیں وہ بھی بہت سادگی سے فلمائے گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ان کی پہلی فلم ہے لیکن چونکہ وہ ابھی ٹیکسٹائل ڈیزائننگ پڑھ رہی ہیں، اس لیے تعلیم پر ان کی توجہ زیادہ ہے۔‘
یاد رہے کہ پاکستان میں بلوچی زبان کی پہلی فلم انور اقبال نے ہمل و مہ گنج 1976 میں بنائی تھی مگر وہ سینیما میں پیش نہیں کی جاسکی تھی کیونکہ اس وقت کے بلوچ قوم پرستوں نے اسے بلوچ ثقافت کے خلاف قرار دے دیا تھا۔
یہ فلم 2017 میں بلوچ کلچرل ڈے کے موقع پر آرٹس کونسل میں دکھائی گی تھی، تاہم سینیما میں پھر بھی نہیں لگی تھی۔