افغانستان میں طالبان حکام نے ایک سابق طالبان کمانڈر پر تشدد اور ریپ کا الزام عائد کرنے والی خاتون کو حراست میں لے لیا ہے۔
یہ گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب خاتون نے پاکستان فرار ہونے کی کوشش کی۔
العربیہ اردو نے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ خاتون کو پاکستان جانے کی کوشش کے دوران ایک چیک پوسٹ سے گرفتار کرکے واپس کابل منتقل کردیا گیا ہے جہاں ان کے خلاف طالبان کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔
افغانستان میں دو روز قبل ایک خاتون کی ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آئی تھی، جس میں انہیں ایک سابق طالبان کمانڈر قاری سعید خوستی کے خلاف شکایت کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد طالبان کمانڈر کے خلاف سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔
مار پیٹ، ریپ اور حراست
الہا دلاورزی کابل یونیورسٹی میں میڈیکل کی طالبہ ہیں اور افغان سکیورٹی فورسز کے سابق جنرلز میں سے ایک کی بیٹی ہیں۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق خاتون، جنہوں نے اپنی شناخت صرف اپنے پہلے نام ’الہا‘ سے ظاہر کی ہے، ویڈیو میں روتے ہوئے طالبان کی وزارت داخلہ کے سابق ترجمان قاری سعید خوستی پر تشدد اور ریپ کیے جانے کے الزامات عائد کرتی ہیں۔
خاتون نے بتایا کہ وہ دارالحکومت کابل کے ایک اپارٹمنٹ سے بات کر رہی ہیں، جہاں سے انہیں طالبان کے ارکان نے اس وقت حراست میں لیا جب انہوں نے اپنی رہائی کی بھیک مانگتے ہوئے ملک سے فرار ہونے کی کوشش کی۔
انہوں نے اپنی شناخت کابل یونیورسٹی میں میڈیکل کی طالبہ کی حیثیت سے کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد پچھلی حکومت کی انٹیلی جنس سروس میں ایک جنرل کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
ٹوئٹر پر ایک افغان شہری نے ان کی ویڈیو شیئر کی۔
الههی ۲۴ ساله میگوید قاری سعید خوستی، سخنگوی پیشین وزارت داخله طالبان اورا بهخاطر اینکه دختر یک جنرال حکومت پیشین است، بهزور بهنکاحش در آورده و هر روز شکنجهاش میکند. pic.twitter.com/ZX9NAfeaTB
— Zahra Rahimi (@ZahraSRahimi) August 30, 2022
پاکستان فرار ہونے کی کوشش
خاتون نے بتایا تھا کہ قاری سعید خوستی نے چھ ماہ قبل ان سے زبردستی شادی کی تھی، جب وہ سرکاری ترجمان تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں نے ہمسایہ ملک پاکستان فرار ہونے کی کوشش کی، لیکن طالبان نے مجھے ایک سرحدی کراسنگ سے گرفتار کر لیا اور اسے واپس کابل لے آئے اور وہاں کے ایک اپارٹمنٹ میں بند کر دیا۔‘
گرفتاری اور سزا
دوسری جانب قاری سعید خوستی نے ٹوئٹر پر ان الزامات سے انکار کیا ہے اور ان کے ساتھی اسے ’طالبان کے خلاف سازش‘ قرار دے رہے ہیں۔
خوستی نے بدھ کو اپنی ٹویٹس میں تصدیق کی کہ انہوں نے ’الہا‘ سے شادی کی تھی اور پھر انہیں طلاق دے دی تھی، لیکن انہوں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی تردید کی۔
— Qari Saeed Khosty (@SaeedKhosty) August 31, 2022
اپنی ٹویٹس میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خاتون سے چھ ماہ قبل ان کی ہی درخواست پر شادی کی تھی۔ ’اس کے بعد میں نے دیکھا کہ انہیں ایمان کا مسئلہ ہے۔ میں نے نصیحت اور بحث کے ذریعے ان کے عقائد کو درست کرنے کی کوشش کی لیکن اس سے فائدہ نہیں ہوا، یہاں تک کہ انہوں نے واضح طور پر مقدس چیزوں کی توہین کی۔‘
انہوں نے خاتون پر تشدد کی تردید کرتے ہوئے کہا: ’میں نے اپنے قانونی حق کا استعمال کیا اور انہیں طلاق دے دی۔ میں اسلامی امارت کے مجاہدین اور افغان عوام سے معذرت خواہ ہوں۔ خدا مجھے معاف کرے۔‘
دوسری جانب ویڈیو کلپ سامنے آنے کے ایک دن بعد تحریک طالبان نے اعلان کیا ہےکہ انہوں نے ’الہا‘ کو گرفتار کر لیا ہے۔ ’طالبان کے زیر انتظام سپریم کورٹ‘ نے بدھ کو رات گئے ایک ٹویٹ میں کہا کہ انہیں چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی کے حکم پر ’ہتک عزت‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
خاتون پر کسی جاری مقدمے کا ذکر نہیں کیا گیا، اہ، صرف اتنا کہا گیا کہ انہیں ’جلد ہی سزا دی جائے گی۔‘
خوستی کو تحریک کے سرکاری ترجمان کے عہدے سے گذشتہ دنوں برطرف کر دیا گیا تھا، تاہم ان کی نئی ذمہ داری واضح نہیں ہے۔
افغانستان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میوزک کے بانی ڈاکٹر احمد سرمست نے ایک ٹویٹ میں لکھا: ’میں بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں سے الٰہا کو تحفظ فراہم کرنے کا کہتا ہوں، جو کہ طالبان کے ہاتھوں جنسی ہراسانی کا شکار ہے اور اسے اپنے ریپ کرنے والے سے شادی کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اسے موت کا خطرہ ہے۔‘
I call on d international community & human rights institutions to protect & #FreeElaha a victim of Taliban sexual abuses and forcible marriage with her abuser facing death after letting d world know of her abuses by a Taliban official @Hrw @UNHumanRights #صدای_الهه_باشیم pic.twitter.com/dVvUja76mW
— Dr Ahmad Sarmast (@DSarmast) August 31, 2022
اغوا شدہ ڈاکٹر کی لاش
ادھر افغانستان میڈیکل کونسل کا کہنا ہے کہ شکریہ الکوزئی نامی ڈاکٹر کی لاش ملی ہے، جسے نامعلوم افراد نے اغوا کیا تھا۔
شکریہ الکوزئی خیرخانہ کے علاقے میں 102 بستروں والے ہسپتال کے شعبہ امراض نسواں کی ڈاکٹر تھیں۔
کونسل نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ ’ڈاکٹر شکریہ الکوزئی کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا ہے۔ ان کی لاش کل ملی تھی۔‘
بی بی سی پشتو کے مطابق انہیں گذشتہ جمعرات کو ایک مریض کے علاج کے بہانے ان کے گھر سے لے جایا گیا اور اغوا کر لیا گیا۔
کابل پولیس کے ایک افسر نے پژواک نیوز ایجنسی کو بتایا کہ پولیس کو ڈاکٹر شکریہ الکوزئی کی لاش خیرخانہ مینا کے علاقے میں ایک غیرآباد مکان سے بوری میں بند ملی۔
حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے میں ملوث افراد کی تلاش کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ خاتون ڈاکٹر کو کس نے اور کیوں قتل کیا۔