جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں میں ریسکیو اور امدادی سرگرمیوں کے بعد تباہ شدہ گھروں، مال مویشیوں اور انسانی جانوں کے نقصان کا تخمینہ لگانے اور سردیوں سے قبل ان کی بحالی کے لیے پانچ ستمبر سے سروے شروع ہو رہا ہے۔
پنجاب میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق اس عمل کو شفاف بنانے کی حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے۔
سروے کے دوران سیلاب سے قبل متاثرہ علاقوں کی سیٹلائٹ تصاویر کا موازنہ سیلاب کے بعد کی تصاویر سے کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ ہر ضلعے کے مقامی اربن یونٹ کے ذریعے مقامی برادریوں سے بھی مدد لی جائے گی۔
متاثرین کی شکایات
ترجمان کمشنر ڈیرہ غازی خان جنید خان جتوئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سروے جلد شروع کیا جا رہا ہے تاکہ متاثرین کو بحالی کے لیے مالی امداد فراہم کی جا سکے۔
جنید کا کہنا تھا کہ ابھی تمام متاثرین کے نقصانات کے دعوؤں کی تصدیق کا طریقہ کار اپنایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا: ’ان علاقوں میں زیادہ تر مکانات کچے تھے اور وہ سیلاب میں بہہ گئے۔ اب جن کے احاطے تھے یا دو مکان تھے وہ بھی بڑھا چڑھا کر بتا رہے ہیں۔ خالی چار دیواری میں بھی مکانات اور جن کے دو مکان تھے وہ چار بتا رہے ہیں اسی طرح جانوروں کی تعداد کا بھی زبانی معلومات سے اندازہ لگانا مشکل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ سیلاب زدگان اپنے طور پر فہرستیں بنا رہے ہیں مگر انتظامیہ نے انہیں وصول کرنا شروع نہیں کیا کیونکہ اس کے لیے ایک طریقہ کار طے ہے جس کے تحت شکایات وصول کرکے تصدیقی عمل کے بعد چیک تقسیم کیے جائیں گے۔
سیلاب زدہ علاقے حاصل پور کے رہائشی خدا بخش بلوچ نے بتایا کہ ان کی پوری بستی، جس میں پندرہ بیس گھر تھے سیلاب میں بہہ گئی۔
وہ کوہ سلیمان کی پہاڑیوں سے قریبی بستی کے رہائشی ہیں مگر اب حاصل پور شہر میں لگے کیمپوں میں مقیم ہیں کیونکہ ان کے گھروں میں ابھی تک کئی کئی فٹ پانی جمع ہے۔ زمینی راستہ بھی نہیں، تین بچے سیلاب کی نذر ہو گئے۔
خدا بخش کے بقول ان کے چار کمرے تھے جو کچے اور پکی اینٹوں سے بنائے ہوئے تھے مگر وہ آہستہ آہستہ زمین بوس ہو گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس درجنوں جانور تھے جو سیلاب میں بہہ گئے جبکہ کچھ بچا لیے گئے، اسی طرح بستی کے دوسرے لوگوں کے گھر بھی تباہ ہو گئے اور جانور بہہ گئے۔
’ہمیں جان بچ جانے کی جتنی خوشی ہے اس سے زیادہ بڑا صدمہ اپنے گھر گرنے اور جانوروں کے بہنے یا مر جانے کا ہے۔ اس بستی کی طرح سیلاب متاثرین کی روزی روٹی کمانے کا ذریعہ کاشت کاری اور جانور پالنا ہے۔
’اگر ہمیں جانوروں کی قیمت، گھروں کی تعمیر اور فصلیں کاشت کرنے کے لیے رقم نہیں ملے گی تو ہم کیسے زندگی گزاریں گے؟
’ہمارا جو نقصان ہوا وہی بتا رہے ہیں اس سے زیادہ کیوں بتائیں گے؟ تاہم حکومت جیسے تصدیق کرنا چاہتی ہے کر لے اور جو نقصان ثابت ہوتا ہے وہی پورا کر دے۔‘
نقصان کا تخمینہ اورجدید ٹیکنالوجی کا استعمال
ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے فیصل فرید نے کہا کہ ریسکیو اور امدادی سرگرمیوں کے بعد متاثرہ علاقوں میں نقصان کا تخمینہ لگانے اور بحالی کا کام پیر سے شروع کیا جائے گا۔
’شفاف طریقے سے متاثرین کے نقصان کا ازالہ کرنے کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔ پہلے مرحلے میں ان علاقوں میں جا کر نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے جائزہ لیا جائے گا۔
’سرکاری ٹیموں کی مدد سے متاثرہ علاقوں کا سروے کیا جائے گا اور ان کی رپورٹ کے بعد تخمینہ لگانے کا کام شروع ہو جائے گا۔‘
فیصل فرید کے بقول ’سیٹلائٹ تصاویر سے حقیقت معلوم ہوگی کیونکہ ہر طرف پانی ہے۔ پوری طرح تصدیق نہیں ہو سکتی کہ کسی کا کتنا نقصان ہوا ہے یا جو بتایا جا رہا ہے وہ درست ہے یا نہیں۔
’سیلاب کے بعد کی سیٹلائٹ تصاویر متعلقہ محکموں سے حاصل کی جا رہی ہیں۔‘
ڈی جی پی ڈی ایم اے نے کہا کہ ’جنوبی پنجاب میں ابتدائی اندازے کے مطابق 40 ہزار سے زائد گھر تباہ ہوئے، ایک لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے، جانی نقصان سو کے قریب ہے اور ہزاروں جانور بھی سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنید خان جتوئی کے مطابق آفت زدہ علاقوں میں نقصان کے ازالے کے لیے حکومتی سطح پر طریقہ کار پہلے سے طے شدہ ہے جس کے مطابق تخمینہ لگایا جاتا ہے۔
’مقامی پٹواری، نمبردار، یونین کونسل چیئرمین، امام مسجد اور متاثرین کا تجویز کردہ کوئی بھی فرد حکومتی نمائندے کے ساتھ مل کر متاثرہ ہر گاؤں، بستی یا موضع میں جاتے ہیں اور اس میں رہنے والے افراد، کمروں اور جانوروں کی تفصیل معلوم کرتے ہیں، زیر آب رقبہ اور اس پر کھڑی فصل کی معلومات جمع کی جاتی ہیں۔‘
جنید نے کہا کہ اس بارے میں باقاعدہ فارم بنائے گئے ہیں جن میں تمام معلومات مجوزہ خانوں میں درج کرنا ہوتی ہیں اس کے بعد مقامی طور پر افسران ان کی تصدیق کرتے ہیں۔
’یہ پورا ریکارڈ جس میں تمام متعلقہ لوگوں کے دستخط ہوتے ہیں، وہ حکومت کو فراہم کیا جاتا ہے۔
’ان تفصیلات کو مدنظر رکھتے ہوئے محکمہ خزانہ ہر گھر کے سربراہ کے نام چیک بناتا ہے جو حکومتی خزانہ سے کیش ہوتا ہے۔‘
ڈی جی پی ڈی ایم اے کے بقول ’یہ چیک براہ راست متاثرین میں تقسیم کیے جاتے ہیں تاکہ شفاف طریقے سے متاثرہ لوگوں تک بحالی کی رقوم پہنچ سکیں۔
’یہ سارا عمل ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جاتا ہے تاکہ لوگ دوبارہ سے اپنے گھر تعمیر کر کے زمینیں آباد کریں اور فصلیں اگانے کے قابل ہوسکیں۔‘