پکی نہر کے کنارے قطار میں رنگ برنگے خیمے لگے ہوئے ہیں، ساتھ ہی میں خواتین مویشیوں کو چارہ ڈال رہی ہیں۔ چھوٹی سی نہر پر پل کے سامنے گاؤں جانے کا راستہ مکمل طور پر زیر آب ہے۔
یہاں کچھ نوجوان نیلے رنگ کے پلاسٹک کے دو بڑے ڈرموں پر بندھی چارپائی پر سامان لاد کر گاؤں سے باہر کی طرف پانی میں چل کر آرہے ہیں۔
یہ مناظر نواب شاہ شہر سے کچھ فاصلے پر لنک روڈ پر واقع گاؤں چاکر خان شاہانی کے ہیں۔ سندھ کے دیگر متعدد اضلاع کی طرح شہید بے نظیر آباد ضلع بھی حالیہ دنوں آنے والے سیلاب سےمتاثر ہوا ہے۔
کئی دنوں سے بارش رکنے کے باوجود دیہات تاحال زیر آب ہیں۔ وہاں کے مکین اپنی مدد آپ کے تحت پانی میں ڈوبے گاؤں سے روزمرہ کے استعمال کی اشیا اور دیگر سامان نکال رہے ہیں۔
گوٹھ چاکر خان شاہانی گاؤں کے رہائشی ریاض حسین لاشاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’مون سون کی شدید بارشیں کئی دن تک جاری رہیں، جس کے باعث آس پاس کے دیگر دیہاتوں کی طرح ہمارا گاؤں بھی مکمل طور پر زیر آب آگیا ہے۔ باہر نکلنے کے لیے کوئی کشتی نہیں تھی۔ گاؤں میں پانی بھرنے کے بعد بچوں اور خواتین سمیت گاؤں کے لوگوں کو باہر نکالنا انتہائی ضروری تھا۔
’اس لیے ہم نے سوچا کہ ڈرم کشتی بنائی جائے۔ اس لیے ہم نے پلاسٹک کے دو ڈرم لیے، ان کو ساتھ باندھ کر ان کے اوپر ایک چارپائی الٹی کرکے رکھ لی اور جب اس کو پانی میں اتارا اور وہ کشتی کی طرح چلنے لگی۔ تو ہم کچھ نوجوانوں نے پہلے بچوں اور خواتین کو اور بعد میں بزرگوں اور دیگر افراد کو پانی میں ڈوبے گاؤں سے نکال کر نہر کے کنارے خشک جگہ پر لے آئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق اس کشتی میں کوئی انجن نہیں ہوتا تو اس کشتی کو دھکیلنا پڑتا ہے۔ گاؤں میں پانی ایک سے ڈیڑھ میٹر تک ہے۔ اس پانی کے اندر تین سے چار لوگ اتر کر اس کشتی کو دھکا دیتے ہیں۔ یہ انتہائی مشکل کام ہے۔
’لوگوں کے انخلا کے بعد اب ہم ڈوبے ہوئے گھروں سے روزمرہ کی اشیا نکال رہے ہیں۔ یہ عمل گذشتہ کئی ہفتوں سے جاری ہے۔‘
ریاض حسین لاشاری کے مطابق ’ڈرم کشتی‘ کے علاوہ انہوں نے پانی سے سامان نکالنے کے لیے ’دیگ کشتی‘ بھی بنائی ہے۔ اس کشتی کے لیے تین، چار دیگوں کو آپس میں باندھ کر اوپر ایک تختہ بھی باندھ دیا جاتا ہے۔ جس پر سامان رکھ کر اس کو پانی میں دھکیل کر باہر لایا جاتا ہے۔