ہم گذشتہ روز بلوچستان کے مختلف سیلاب زدہ اضلاع سے ہوتے ہوئے ضلع صحبت پور سے واپس جا رہے تھے کہ راستے میں ریلوے پھاٹک کے قریب ایک گاڑی تقریباً تین سے چار فٹ پانی میں پھنسی دیکھی۔
اس صورت حال میں اپنی گاڑی کو بند ہونے سے بچانے کے لیے ہم نے تباہ حال سڑک سے بچتے ہوئے راستہ تبدیل کر لیا۔
چونکہ ڈرائیور کو علاقے کے دوسرے راستوں کا علم نہیں تھا لہٰذا ہمیں شہریوں سے جیکب آباد شہر کا راستہ پوچھنا پڑا۔
ہم دوسرے راستے سے ہوتے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے کہ ڈیرہ اللہ یار کی حدود میں یک دم ڈرائیور نے بریک لگا دی کیونکہ گاڑی کے سامنے سے چار افراد بھاگتے ہوئے دوسری جانب گئے۔
صورت حال کو بھانپتے ہوئے ہم بھی فوراً گاڑی سے اترے اور قریب جا کر دیکھا تو سڑک کے کنارے ایک بچی کی نعش پڑی تھی جبکہ دوسری نعش ہمارے سامنے پانی سے نکالی جا رہی تھی۔
اس دوران ایک خاتون بھاگتے ہوئے آئی اور ہجوم کو چیرتے ہوئے آگے بڑھی اور اپنی دو بچیوں کی نعشیں دیکھ کرنا چیخنا شروع ہو گئی۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ کچھ منٹ قبل نو سالہ نرگس پانی میں گر گئی تو اس کی بڑی بہن 13 سالہ نزیراں اسے بچانے کے لیے پانی میں کود پڑی لیکن دونوں گہرے پانی میں ڈوب کر جان سے چلی گئیں۔
ہم نے بچیوں کی نعشیں ملنے کے بعد آس پاس غم و غصے کی کیفیت دیکھی۔ آصف نامی ایک شخص نے ہمیں بتایا کہ آٹھ روز پہلے مون سون کی بارشیں بند ہو چکی ہیں لیکن علاقے میں بدستور سیلابی صورت حال ہے اور انتظامیہ تاحال شہر سے پانی نہیں نکال سکی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قریب ہی کھڑی خاتون زلیخا بی بی نے کہا کہ یہ پانی نکالیں، بچے ڈوب کر مر رہے ہیں۔
’ہم پانی میں ڈوب رہے ہیں، ہمارے بچے تو نہ ڈوبیں۔ آج دو بچیاں مر گئیں، کل میرے بچے ڈوب جائیں گے اور پرسوں باقیوں کے۔‘
زلیخا کا کہنا تھا: ’حکومت مہربانی کرے۔ ہمیں امداد نہیں چاہیے بس ہمارے بچے بچ جائیں۔ یہاں سے پانی نکلوائیں۔ آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا فوٹو نکالا ہے، یہ فوٹو حکام کو بھیجیں۔ نہ ٹینٹ دیا نہ راشن، بچے تو نہ ڈوبیں۔‘
ڈسٹرکٹ کمشنر جعفر آباد رزاق خان خجک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضلع جعفر آباد 90 فیصد ڈوب چکا ہے جبکہ سیلاب کے باعث تاحال 11 اموات ہو چکی ہیں۔
اس واقعے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
واضح رہے بلوچستان کے 34 میں سے 31 اضلاع مکمل یا جزوی طور پر ڈوب چکے ہیں۔