کوئٹہ کے نواحی علاقے ہنہ اوڑک میں سیلاب نے جہاں کا بھی رخ کیا، وہاں مکینوں کو جان بچانے کے لیے صرف چند منٹ ہی ملے۔ اگر تھوڑی دیر ہو جاتی تو اپنے گھروں کی طرح وہ بھی اس کی سیلاب کی نذر ہو جاتے۔
علاقے کے اس گاؤں میں ہر طرف تباہی مچی ہوئی ہے۔ مکین اپنے گھروں کے ملبے سے بچا ہوا سامان تلا ش کر رہے ہیں، جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں پر زلزلے جیسی کوئی آفت آئی ہو۔
ہنہ اوڑک کے رہائشی قبا اللہ نے سیلاب سے ہونے والی تباہی کے بارے میں بتایا کہ ان کے گاؤں کے اوپر کی طرف ایک نالہ جاتا ہے، جس میں سے برساتی پانی گزر کر ہنہ جھیل میں گرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ نالہ تقریباً سو سال قبل انگریزوں نے بنایا تھا۔
’جب سے یہ نالہ بنا ہے۔ کبھی اس کا پانی اس طرح نہیں آیا۔ ہمارے بزرگ جو اس وقت 80 سے 90 سال کے ہیں، وہ بھی یہی بتاتے رہے ہیں کہ اس نالے کا پانی کبھی بھی اس طرح نہیں آیا۔
قبا اللہ کہتے ہیں کہ پہلے جب بھی سیلاب کا پانی آتا تھا، وہ چار سے چھ فٹ کے درمیان ہوتا تھا، جو پیچھے اوڑک سے آتا تھا جو یہاں پہنچ کر تین سے چار فٹ رہ جاتا تھا۔
ان کے مطابق اس پانی کا رخ چونکہ ہنہ جھیل کی طرف ہوتا تھا، اس لیے ہمیں کبھی بھی اس سے کوئی خطرہ نہیں رہا ہے۔
تاہم قبا اللہ کے مطابق: ’اب کی بار جب پانی آیا، جو آٹھ فٹ سے زیادہ تھا اور اس نے نالے کے اوپر سے بہنا شروع کر دیا، جس کی شدت بڑھنے پر نالے کے اس طرف بنے بند میں شگاف ہوگیا۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ شگاف سے جو پانی اس علاقے میں داخل ہوا وہ چار سے چھ فٹ تھا، جو اس گاؤں کے 28 سے 30 گھروں کو بہا کر لے گیا۔
انہوں نے کہا کہ نالے پر کام کرنے والوں کو علاقے کے لوگوں نے خبردار کیا تھا کہ چھیڑ چھاڑ کرنے سے ہمیں خطرہ ہوسکتا ہے، ’لیکن انہوں نے ہماری بات کو نہیں مانا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت ہمیں فوری ٹینٹ کی ضرورت ہے۔ ’حکومت نے ہمیں دس گھرانوں پر ایک ٹیںٹ دیا ہے۔ اس میں اتنے سارے لوگ کیسے گزارا کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قبا اللہ نے اپیل کی کہ حکام یہاں کے متاثرین کو فوری ٹینٹ اور راشن فراہم کر کے ان کی مدد کریں، کیوں کہ اس وقت ان کے گھر منہدم ہوچکے ہیں اور جو بچ گئے ہیں، وہ رہنے کے قابل نہیں ہیں۔‘
ادھر اسی علاقے کے ایک متاثرہ شخص غلام نبی نے اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے سے کارآمد چیزیں کھود کر تلاش کرتے ہوئے بتایا کہ جب پانی کی مقدار بڑھنے لگی تو اس وقت بس ہمیں صرف پانچ منٹ ملے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے اس نالے سے جو پانی آ رہا تھا وہ جھیل کی طرف جاتا تھا۔ اب جو یہاں پر کام کرنے والوں نے نالے پر کام شروع کیا تو انہوں نے نالے کو چھوٹا کر دیا۔‘
غلام نبی کہتے ہیں کہ نالہ چھوٹا ہونے سے پانی جمع ہوا اور اس نے نالہ توڑ کر ہمارے گھروں کا رخ کر لیا، جس نے ہمارے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔
’اب ہم لوگ اس ملبے سے سامان نکال رہے ہیں۔ جو پانی اور مٹی کے باعث خراب ہوچکا ہے اور قابل استعمال نہیں رہا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ایک طرف سیلاب نے گھر تباہ کر دیے، دوسری جانب یہاں پر گیس اور بجلی کی بندش نے ہمارے حالات مزید خراب کر دیے ہیں۔
غلام نبی کہتے ہیں کہ ’جب ہم اپنے تباہ شدہ گھر کو دیکھتے ہیں، جس کے ساتھ ہمارے کئی سالوں کی محنت اور یادیں جڑی تھیں، تو ہمارا دل پھٹ جاتا ہے۔‘