افغانستان کی وزارت انصاف کے ایک نمائندے نے کہا ہے کہ افغانستان کو آئین کی ضرورت نہیں ہے اور وہ صرف اسلامی قوانین کے اطلاق سے اپنے مسائل حل کر سکتا ہے۔
ایک پریس کانفرنس میں نائب وزیر انصاف عبدالکریم حیدر نے کہا کہ حنفی قانون لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے فریم ورک کا کام کرتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قرآن پاک، پیغمبر کی سنت اور ہر اسلامی ملک کا فقہ عام طور پر اور تفصیل سے آئین کی بنیاد اور متن ہیں۔‘
ماہرین کے مطابق اگست 2021 میں طالبان جب افغانستان میں برسراقتدار آئے تو انہوں نے ابتدا میں کوئی نئی حکومت قائم نہیں کی اور نہ ہی آئین کو معطل کرنے یا منسوخ کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ تاہم، جب افغانستان میں چین کے سفیر کی طرف سے اشارہ کیا گیا تو، وزیر انصاف نے نوٹ کیا کہ طالبان 1964 کے آئین کو عارضی طور پر نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، ان حصوں کو چھوڑ کر جو امارت اسلامیہ افغانستان کے اصولوں سے متصادم ہیں۔
جب گذشتہ ستمبر میں نگراں انتظامیہ کو متعارف کرایا گیا تھا تو حکومت کو 2004 کے آئین سے مختلف نظام پر وضع کیا گیا تھا، لیکن اس میں 1964 کے ورژن سے مماثلت تھی۔ 2004 کا ماڈل صدارتی حکمرانی کے لیے فراہم کرتا ہے اور براہ راست ووٹ ایک صدر کو پانچ سال کی مدت کے لیے ریاست کے سربراہ کے طور پر منتخب کرتا ہے۔
افغان نیوز ویب سائٹ طلوع کے مطابق اس موقع پر فضل ہادی وزین، یونیورسٹی کے ایک لیکچرر نے کہا کہ ’جدید دور میں کسی بھی حکومت کے لیے آئین ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔ جدید دور میں کوئی بھی حکومت آئین کے بغیر کام نہیں کر سکتی۔‘
سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے نائب وزیر انصاف نے کہا کہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر جماعتوں کو متحرک ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
ملک میں خواتین وکلا کی جانب سے کیے جانے والے کام کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمام خواتین کو اسلامی قوانین کے تحت ان کے حقوق فراہم کیے جائیں گے۔
عبدالکریم حیدر نے کہا کہ ’جب حالات سازگار ہوں گے تو امارت اسلامیہ خواتین کو وہ حقوق دے گی جو اسلام نے انہیں عطا کیے ہیں۔‘
وزارت کے حکام کے مطابق وزارت وزیراعظم کی درخواست پر اسلامی قانون کے مطابق آئین کی تیاری کے لیے تیار ہے۔
’ہم امیر المومنین کی ہدایت کا انتظار کر رہے ہیں، جب وہ قانون بنانے کی ہدایت کریں گے۔ حنفی نظام، قرآن اور سنت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ماخذ ہیں، اس لیے ہمیں یقین ہے کہ جلد از جلد ایک جامع قانون تشکیل دیا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان نے 1996 اور 2001 کے درمیان اپنے پہلے دور حکومت میں کبھی بھی افغانستان کے لیے کوئی تحریری آئین متعارف نہیں کروایا اور نہ ہی کسی سابق ورژن کی توثیق کی تھی۔ لیکن انہوں نے آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے کچھ کوششیں ضرور کیں۔
یہ عمل 1998 میں اس وقت شروع ہوا جب طالبان کے اس وقت کے رہنما ملا محمد عمر نے - جنہیں باضابطہ طور پر امیر المومنین کے نام سے جانا جاتا تھا - ایک قانون سازی کا حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت ایک نام نہاد دستور ساز اسمبلی - یا علما کمیٹی (علما کی ایک مذہبی تنظیم) - تھی۔ افغانستان کے سابق چیف جسٹس مولوی نور محمد ثاقب کی قیادت میں قائم کی گئی تھی۔
اس حکم نامے میں افغانستان کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں کمیٹی کے پاس قوانین کا جائزہ لینے کا اختیار دیا گیا تھا۔ کمیٹی کا کام رائج قوانین کو دیکھنا تھا، بشمول ماضی کے آئین کا جائزہ اور ان آرٹیکلز کو ہٹانا تھا جو شریعت کے مطابق نہیں تھے۔
کمیٹی نے جولائی 1998 میں آئین پر کام شروع کیا اور فیصلہ کیا کہ پچھلے آئین کا جائزہ سنی اسلام کے حنفی مسلک کے مطابق ہونا چاہیے۔ شریعت سے متصادم شقوں میں ترمیم یا انہیں منسوخ کیا جائے گا اور اگر ضروری ہوا تو ایک نئی شکل دی جائے گی۔ لیکن دسمبر 2001 میں امریکی قبضے کے بعد یہ کام ادھورا رہ گیا تھا۔
ڈی فیکٹو
طالبان کی امارت اسلامیہ افغانستان کے تحت امیر المومنین ریاست کے سربراہ ہیں۔ وہ انتظامی، قانون سازی اور عدلیہ کے شعبوں میں اپنے اختیارات کو آئین اور دیگر قوانین کی دفعات کے مطابق سرانجام دیتے ہیں۔ طالبان کے مطابق ان کا امیر ایک افغان شہری ہوگا، جو افغان مسلمان والدین کے ہاں پیدا ہوا اور حنفی مسلک کا پیروکار ہوگا۔
امیر المومنین کے پاس اسی طرح کے بے پناہ اختیارات ہیں جو بادشاہ کو 1964 کے آئین کے تحت حاصل تھے۔
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے 4 جنوری 2004 کے اواخر میں کابل میں لویہ جرگہ کے 502 مندوبین کی جانب سے نئے مسودہ دستور کی منظوری کے بعد جرگے سے خطاب ک ر رہے ہیں۔ جرگے نے طالبان کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک کا نیا آئین منظور کیا جس میں مندوبین کی اکثریت نے صدارتی نظام کی منظوری دی اور اس سال کے آخر میں انتخابات کی راہ ہموار کی تھی۔
وزارت انصاف نے مزید کہا کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں اس تنظیم کی آمدن 42 ملین افغانیوں سے تجاوز کر گئی ہے۔