صوبہ خیبر پختونخوا کے سیلاب سے انتہائی متاثرہ ضلع سوات میں ایک حاملہ خاتون بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث انتقال کر گئی۔
سوات کی تحصیل بحرین کے گاؤں اتروڑ جو دیگر علاقوں سے مکمل طور پر کٹ کر رہ گیا ہے، کے علاقہ مکینوں کے مطابق ضلعی انتظامیہ سے بارہا درخواستوں کے باوجود بروقت ہیلی کاپٹر نہ پہنچنے کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔
اتروڑ کے سابق ناظم اور ریلیف ورکرعبدالوہاب نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک وٹس ایپ گروپ میں ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان سے حاملہ خاتون کو ہسپتال منتقل کرنے کی بارہا گزارش کی لیکن کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
‘ہمارا ایک وٹس ایپ گروپ ہے، جہاں ڈپٹی کمشنر سوات اور دیگر حکومتی ارکان موجود ہوتے ہیں۔ مجھ سمیت کئی لوگوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے مریضوں کو قریبی ہسپتال اور بنیادی مرکز صحت (بی ایچ یو) منتقل کرنے کی گزارش کی لیکن کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
’حتیٰ کہ پچھلے ہفتے، پرسوں اور گذشتہ روز ہیلی کاپٹر اسی گاؤں میں راشن پھینکنے کے علاوہ کچھ سیاحوں کو لے جا چکا ہے۔’
عبدالوہاب کے مطابق جب انہوں نے سوات کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ابرار وزیر، جو علاقے میں ہیلی کاپٹر کے انچارج بھی ہیں، سے استفسار کیا تو انہیں جواب دیا کہ ان کے پاس موجود فہرست میں مذکورہ خاتون کا نام نہیں تھا۔
‘نام ضروری نہیں تھا، اس خاتون کو بروقت پہنچانا ضروری تھا، جس کے لیے واٹس ایپ گروپ میں متعدد بار درخواست کی گئی اور پھر بھی نظرانداز کیا گیا۔’
عبدالوہاب نے مزید بتایا کہ کئی اور مریض اور کچھ حاملہ خواتین اب بھی مدد کی منتظر ہیں کیونکہ ان کے گاؤں کا راستہ بحرین اور کالام سے بالکل کٹ کر رہ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گاؤں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پہاڑوں میں دیر تک جانے والا ایک پرپیچ راستے کو، جو آدھا سیلاب سے متاثر اور آدھا ٹھیک تھا، عارضی طور پر بحال کر دیا ہے۔ تاہم اس راستے پر صرف پیدل یا ٹریکٹر ہی جاسکتا ہے۔
‘ٹریکٹر میں مریضوں کو لے جانا آسان نہیں۔ اتروڑ سے تھل تک پہاڑوں میں راستہ 35 کلومیٹر ہے اور تھل سے آگے دیر کی سرحد تک مزید ایک گھنٹے کا سفر ہے، ایسے میں حاملہ خواتین اور مریضوں کو لے جانا تقریباً ناممکن ہے۔’
ہیلی کاپٹر کیوں نہیں پہنچا؟
اس بابت سوات کے ڈپٹی کمشنر جنید خان سے تحریری طور پر اور فون کالز کے ذریعے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تاہم ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سوات ابرار وزیر نے بتایا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق مرنے والی خاتون کینسر اور دمے کی مریضہ تھیں اور صرف چند ماہ کی حاملہ تھیں۔
‘مقامی ناظم ملک شیردل کے مطابق وہ دمے اور کینسر کی مریضہ تھیں۔ اتروڑ ایک بلندوبالا پہاڑوں کی اونچائی پر واقع علاقہ ہے، جہاں ہیلی کاپٹر کا جانا انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔’
انہوں نے بتایا کہ انہیں گذشتہ صبح افسروں سے ایک فہرست موصول ہوئی، جس میں ایک چھ ماہ اور ایک سات ماہ کی حاملہ خواتین کے نام تھے۔
‘چونکہ دونوں خواتین کی ڈیلیوری دور تھی اور ان کی حالت خطرے سے باہر تھی لہٰذا وہ خود بھی ہسپتال جانے کا اظہار نہیں کر رہی تھیں۔
’اب بتایا جا رہا ہے کہ فوت ہونے والی خاتون ان دو کے علاوہ تھیں، جن کے فوت ہونے کی اصل وجہ ابھی سامنے نہیں آئی۔’
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابرار وزیر نے بتایا کہ پورے ضلع سوات کے لیے صوبائی حکومت سے صرف ایک ہیلی کاپٹر ملا، جس نے سیلاب کے بعد 26 سے زیادہ پروازیں کیں اور تقریباً 1200 لوگوں کو مختلف علاقوں سے نکالا۔
‘کسی بھی ہیلی کاپٹر کے لیے قاعدہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی حد پورا کرتا ہے تو مرمت وغیرہ کے لیے تقریباً 10 دن اسے کھڑا رکھا جاتا ہے لیکن وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کام نہیں رکنا چاہیے، اسی وجہ سے صوبائی ہیلی کاپٹر شام کو مرمت کے لیے جاتا اور صبح پھر آ جاتا۔
’چار دن پہلے اس کی لمٹ مکمل ہو چکی تھی جس کے بعد اس کی مرمت کی ضرورت پڑی۔ وہ ٹیکنالوجی سرے سے پاکستان میں نہیں لہٰذا اس کو دبئی بھجوانا ہوگا، تب تک صوبائی حکومت ایک اور ہیلی کا انتظام کرے گی۔’
بحرین میں امدادی کارروائیوں میں مصروف خیبرپختونخوا حکومت کے ایک افسر جنید طورو نے بتایا کہ یہ درست ہے کہ ہیلی کاپٹر گذشتہ روز اس علاقے میں راشن پہنچانے اور سیاحوں کو نکالنے گیا تھا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ بحرین کے تمام علاقوں کے مقامی قائدین اور ریلیف ورکرز کو بارہا بتایا گیا کہ اگر کوئی ہیلی کی مدد چاہتا ہے تو وہ ہیلی کے لیے مخصوص مقامات پر پہنچے۔
‘لوگوں کو اطلاع نہیں پہنچ پا رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر وہ متعلقہ پوائنٹس پر نہیں آئیں گے تو کیسے معلوم ہوگا کہ انہیں کیا مسئلہ ہے۔’