سر پر بڑی سی ہیٹ، کالے رنگ کی عینک، پیروں میں ربڑ کے لانگ بوٹس اور خون آلود ایپرن۔ یہ حلیہ ہے یسریٰ قریشی کا جو اس گیٹ اپ میں صبح آٹھ بجے سے رات دو بجے تک پائی جاتی ہیں۔ ویسے تو یہ فائن آرٹسٹ ہیں، مصوری بھی کرتی ہیں اور انٹیرئیر ڈیزائننگ بھی مگر ان کا دل کسی اور کام میں زیادہ لگتا ہے۔
لاہور کینٹ کے قریب بھٹہ چوک کو جاتے ہوئے رنگ روڈ کے بائیں جانب ایک گلی میں چار کنال کا پلاٹ ہے جس کے تین کنال کے باہر چار دیواری ہے اور ایک لوہے کا دروازہ۔ اس چار دیواری کے اندر ایک دنیا آباد ہے اور وہ ہے آوارہ کتوں کی دنیا۔ ان کتوں کی دنیا میں ایک انسان بھی رہتا ہے اور وہ ہیں یسریٰ قریشی۔
یسریٰ کو یہ جگہ علاقے کے ایک سیاستدان نے ایک سال کے لیے مفت میں دی تھی تاکہ وہ اپنا شوق پورا کر سکیں۔ یسریٰ نے یہاں 40 سے زیادہ کتے رکھے ہوئے ہیں اور سب کے سب وہ ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے یسریٰ نے بتایا کہ اب اس جگہ کو خالی کرنے کے لیے ان کے پاس تقریباً 15 دن کا وقت بچا ہے کیونکہ مالک نے پلاٹ بیچ دیا ہے۔ وہ نہیں جانتیں کہ اب وہ ان جانوروں کو لے کر کہاں جائیں گی؟
یسریٰ نے فیس بک پر دی اینیمل ری ہیبلیٹیشن زون اینڈ نیٹورک کے نام سے ایک گروپ بھی بنا رکھا ہے جس کے چار ہزار کے قریب ممبرز ہیں۔ آج کل یہ یہاں بھی ممبرز سے اپیل کر رہی ہیں کہ کوئی یا تو ان کتوں کے لیے جگہ کا انتظام کر دے جہاں یہ ان کو لے جائیں اور یا پھر اس فیس گروپ کے ممبرز یا کوئی بھی کم از کم ایک، ایک کتا اپنے گھر لے جا کر ان کی دیکھ بھال کریں۔
مگر اب تک کسی ممبر کی جانب سے کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔ یسریٰ کہتی ہیں کہ اس گروپ میں لوگ مجھے صرف تب رابطہ کرتے ہیں جب انھوں نے کسی جانور کو کہیں سے اٹھوانا ہو پھر چاہے وہ ان کے علاقے کا آوارہ کتا ہو یا کوئی سڑک پر کسی حادثے کا شکار کوئی جانور۔ مالی مدد یا جانوروں کے لیے کھانے کی شکل میں مدد کم و بیش ہی آتی ہے۔
انتہائی افسوس سے یسریٰ نے کہا کہ اگر ان کتوں کے لیے کچھ انتظام نہ ہوسکا تو میں کچھ نہیں کر پاؤں گی اور بس سمجھوں گی کہ ایک انسان ہونے کے ناطے میں ان کے لیے جو کچھ کر سکتی تھی میں نے کیا۔ مجھے انہیں واپس سڑک پر چھوڑنا ہوگا۔
یسریٰ کے پاس کوئی مدد گار نہیں وہ ان جانوروں کا سارا کام خود ہی کرتی ہیں۔ ان کے پاس ایک پرانی اور چھوٹی سی گاڑی ہے جس میں کوئی بھی انسان بیٹھنا پسند نہیں کرتا، اسی گاڑی میں وہ جانوروں کو اس شیلٹر میں لے کر آتی ہیں۔ جن میں سے بیشتر وہ آوارہ کتے ہیں یا دیگر جانور ہیں جنہیں کوئی گاڑی ٹکر مار جاتی ہے اور ان کی ٹانگیں ٹوٹ جاتی ہیں یا ان کے زخموں میں کیڑے پڑ چکے ہوتے ہیں اور ان کے جسم کے حصوں کو کٹوانا پڑتا ہے۔ کچھ بوڑھے کتے جن کے مالکان انہیں گھر سے دور چھوڑ آتے ہیں اور کچھ ایسے جنہیں لوگ بیگ یا ڈبے میں بند کر کے پھینک دیتے ہیں۔
یسریٰ کے اس شیلٹر میں ہر سائز،عمر اور ہر طرح کی بیماری سے لڑتا کتا ہے جبکہ 20 سے زیادہ کتے، بلیاں اور پرندے جن میں چیلیں بھی شامل ہیں ان کے گھر پر ہیں۔ یسریٰ ان جانوروں کو پکڑ کر لاتی ہیں، علاج کرواتی ہیں اور انہیں کھانا پینا مہیا کرتی ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنا وقت دیتی ہیں۔
’مجھے نہیں یاد کہ میں نے جانوروں میں کب سے رہنا شروع کیا مگر میری امی بتاتی ہیں کہ جس عمر میں بچوں کا اپنا ہوش بھی نہیں ہوتا تب سے میں جانوروں کے ساتھ رہ رہی ہوں۔ آرٹ، میوزک اور جانوروں کا کام میری روح ہیں۔‘
یسریٰ نے بتایا: میرے شیلٹر میں جتنے کتے ہیں وہ دن میں 20 کلو چکن کی گردنیں کھاتے ہیں جنہیں وہ خود صبح سویرے مختلف قصابوں سے اکٹھا کر کے لاتی ہیں پھر سبزی اور چاول بھی اسی میں مکس کر کے وہ ان کا کھانا تیار کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان سب کتوں کو ٹیکے لگے ہوئے ہیں اس کے باوجود ان کے چیک اپ، ادویات وغیرہ ملا کر کافی خرچہ ہو جاتا ہے۔ اندازً دن کے پانچ ہزار روہے۔
’ابھی تک تو میں اپنی جیب سے خرچہ کر رہی ہوں مگر جب میں فیس بک کے اپنے گروپ میں مالی تعاون کی اپیل کرتی ہوں تو بدقسمتی سے کوئی بھی مثبت جواب نہیں آتا۔‘
یسریٰ کے خیال میں اگر یہ جانور ان کے پاس نہ آتے تو یہ اب تک مر چکے ہوتے۔ ’میرے پاس سات ریبڈ کتے اور دو گدھے آئے تھے جن کو باولے کتے نے کاٹا ہوا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریبیز بہت زیادہ پھیل گئی ہے۔ لوگ واقعی میں ڈرتے ہیں اور ڈرنا بھی چاہیے، جب آپ مارکیٹ میں جائیں تو ویکسینیشن میسر ہی نہیں ہوتی۔ میری حکومت سے اپیل ہے کہ ریبیز کی ویکسینیشن اپ ڈیٹڈ رکھیں اور یہ یقین دہانی ضرور کر لیں کہ اس کی مدت معیاد ختم نہ ہوگئی ہو۔ اس کی کولڈ چین مینٹین ہو کیونکہ اگر وہ ایکسپائر ہو گی اور آپ اس کا ٹیکہ لگوا بھی لیں تو وہ بیکار ہے۔‘
لاہور کے ایک شہری طارق افضل نے چند روز قبل انڈپینڈنٹ اردو سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ جس سوسائٹی میں رہتے ہیں وہاں آوارہ کتوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا جن میں سے ایک کو تڑپ کر مرتے ان کی اہلیہ نے دیکھ لیا اور وہ ذہنی طور پر شدید دباؤ کا شکار ہو گئیں۔ جب انہوں نے سوسائٹی کی انتظامیہ کو درخواست دی کہ کتوں کو یوں نہ مارا جائے تو انہیں جواب ملا کہ وہ اس معاملہ میں نہ آئیں ورنہ سوسائٹی ان کی یہاں رہائش کا این او سی ختم کر دے گی۔
یسریٰ کہتی ہیں کہ حکومت کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو گولی مارنے میں حکومت کی جیب سے پیسے خرچ ہو رہے ہوتے ہیں۔ لیکن حکومت اس وجہ سے یہ کر رہی ہے کیونکہ ایک تو ریبیز پھیل رہی ہے، دوسرا فرض کریں لاہور میں ایک لاکھ آوارہ کتا ہے اگر حکومت سپے [مادہ کتیا کی افزائش نسل کو ختم کرنا]، نیوٹر[نر کتے کی افزائش نسل ک ختم کرنا] کروا کر ان کی آبادی کو کنٹرول بھی کر لے تو انہں رکھیں گے کہاں؟ ایک مادہ کو سپے کروا کر 15 دن کے لیے زیر نگرانی رکھنے پر تقریباً 15 ہزار روپے کا خرچہ آئے گا۔ ایک لاکھ کتوں کو اس طرح فکس کروایا جائے تو اخراجات کہاں پہنچیں گے پھر ان جانوروں کے لیے ایک ہزار شیلٹر بھی بنا دیے جائیں تو وہ ایک ماہ میں ہی بھر جائیں گے۔ اتنے کتوں کا خرچہ حکومت نہیں اٹھا سکتی۔ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے اس لیے انہیں ان کتوں کو مارنا ہی پڑتا ہے۔
یسریٰ نے حکومت کو مشورہ دیا کہ اگر ان کتوں کو مارنا ناگزیر ہے تو پھر ایسا طریقہ اپنائیں جس سے تکلیف کم سے کم ہو۔
انھوں نے بتایا کہ جیسے یوتھنیزیا یا جسے پر امن موت بھی کہتے ہیں اس کے لیے آپ کو جانور کو پکڑنے میں پانچ سے چھ گھنٹے لگتے ہیں۔ اس لیے پھر انہیں گولی ہی مارنی پڑتی ہے۔ اگر صحیح نشانے سے جانور مارا جائے تو تین سے پانچ منٹ لگتے ہیں دوسرا ان جانوروں کو کھانے میں زہر دیا جاتا ہے۔ وہ بہت برا ہے اس میں جانور زیادہ تڑپ کر مرتا ہے تو آپ کے پاس گولی کی آپشن تڑپتے ہوئے جانور سے بہتر ہے۔
اس کے باوجود یسریٰ کے خیال میں آوارہ کتوں کو مار دینا حل نہیں ہے اس کا حل عوام نے ڈھونڈنا ہے۔ اگر کسی کے پاس پانچ جرمن شیپرڈ ہیں اور وہ سوسائٹی کا کنگ بنا ہوا ہے تو وہ اگر ایک آوارہ کتے کو گھر میں جگہ دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عوام ان کتوں کو گود لے اور ان کی دیکھ بھال کرے۔ اس کے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ وہ امپورٹڈ بریڈ اور جانوروں کی خرید و فروخت پر پابندی لگائے اس سے یقیناً ہم ان آوارہ کتوں کی زیادہ مدد کر سکیں گے۔
یسریٰ سوچتی ہیں کہ اگر انسان ٹھیک ہو جائیں تو جانور خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ ایک گھر ایک بلی اور ایک کتے کو جگہ دے تو پاکستان میں خود بخود چیزیں ٹھیک ہونا شروع ہو جائیں گی۔ ان کے خیال میں جو لوگ ایسے جانوروں کو اپنے پاس پناہ دیتے ہیں ان میں ہمدردی کا جذبہ عام لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ امپورٹڈ جانور تو سبھی رکھتے ہیں لیکن آپ ایک تڑپتا ہوا جانور سڑک سے اٹھائیں آپ کا احساس تب شمار ہوتا ہے۔