ذیشان ایک دکان پر سیلز مین کا کام کرتا ہے۔ اس کی تنخواہ 20 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ تین بچے، ایک بیوی اور ماں باپ اس کی ذمہ داری ہیں۔
اس کی بیٹی شدید بیمار ہے لیکن دوائی لانے کے پیسے نہیں کیونکہ تنخواہ مہینے کے پہلے نو دنوں میں ختم ہو چکی۔
گھر کا کرایہ سات ہزار روپے ہے اور اس ماہ بجلی کا بل 13 ہزار روپے آ گیا۔ گھر کا راشن، بچوں کی سکول فیس اور بوڑھے ماہ باپ کی دوائی کا بندوبست ہونا ناممکن ہے۔
وہ مایوس ہو چکا ہے اور سوچ رہا ہے کہ اس کے گھر کے اخراجات سو گنا سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
وہ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے ٹی وی پر وزیر خزانہ اور وزیر دفاع کی پریس کانفرنس سنی جس میں وہ فرما رہے تھے کہ اگلے دو مہینوں میں مہنگائی میں کمی آ جائے گی۔
ذیشان کے لیے یہ خبر تازہ ہوا کا جھونکا تھی لیکن پریس کانفرنس کے اختتام پر اس کی خوشی ختم ہو گئی کیونکہ حکومتی وزرا نے صرف اعلان کیا ہے۔
وہ یہ مہنگائی کیسے کم کریں گے اس حوالے سے کسی لائحہ عمل کا ذکر نہیں کیا گیا اور مہنگائی کم کرنے کے طریقہ کار سے متعلق صحافیوں کے سوالوں کے تسلی بخش جواب بھی نہیں دیے۔
ذیشان کا کہنا ہے کہ اسے حکومت کے دو ماہ میں مہنگائی کم کرنے کے دعوے پر یقین نہیں۔ ’میں حکومتی دعوے پر اس وقت یقین کروں گا جب مجھے ادھار نہیں مانگنا پڑے گا اور میرے گھر کا بجٹ میری تنخواہ سے پورا ہو سکے گا۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو میرے لیے حکومتی دعوے جھوٹ کے پلندے کے سوا کچھ نہیں۔‘
مہنگائی کم کرنے کے حکومتی دعوے سے متعلق سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آنے والے دنوں میں آمدن کے ذرائع مزید کم ہو جائیں گے اور مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔
اس وقت مہنگائی کی شرح تقریبا 25 فیصد سے زیادہ ہے جو چھ ماہ قبل 12 سے 14 فیصد کے درمیان تھی۔
حکومت بجلی مزید مہنگی کرنے کے وعدے کر چکی ہے۔ گیس کی قیمت میں 200 فیصد سے زیادہ اضافہ کر دیا گیا ہے اور سردیوں میں اس قیمت میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ شرح سود مزید بڑھنے کے امکانات ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی کے علاوہ 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تیاری کر لی گئی ہے جس سے پیٹرول کی قیمت میں تقریباً 40 روپے فی لیٹر اضافہ ہو سکتا ہے۔
ڈالر کا ریٹ مسلسل بڑھ رہا ہے جس کا اثر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر پڑے گا۔ دالیں، سبزیاں درآمد کرنا پڑ رہی ہیں اور یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہ سکتا ہے۔
اگر معاشی پالیسیاں اسی طرح چلتی رہیں تو اگلے چھ ماہ میں مہنگائی کی شرح 35 سے 40 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔
حکومت کوئی ایک بھی قدم ایسا نہیں اٹھا رہی جس سے یہ امید پیدا ہو کہ مہنگائی کم ہو سکے۔ صرف وعدوں، دعوؤں اور نعروں سے مہنگائی کم نہیں ہو سکے گی۔
مہنگائی کم کرنے کے حکومتی دعوے کی حیثیت سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔
ایک اور ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق مہنگائی میں ہوشربا اضافے نے عوام کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
سیلاب کی وجہ سے مہنگائی کا ایک اور سونامی پھن پھیلائے کھڑا ہے۔ حکومت کو بھی اندازہ نہیں کہ آنے والے دن کس قدر مشکل ہو سکتے ہیں۔
سینٹرل بینک کا کردار موثر دکھائی نہیں دے رہا۔ شرح سود تقریبا سو فیصد بڑھا دی گئی ہے لیکن مہنگائی پر قابو پانے کی کوئی موثر پالیسی نہیں بنائی جا سکی۔
وفاقی حکومت نے اس مالی سال میں مہنگائی کا ہدف 11 سے 12 فیصد رکھنے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن سٹیٹ بینک نے اسے غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے مہنگائی کا ہدف 18 سے 20 فیصد طے کیا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ حکومت کا اگلے دو ماہ میں مہنگائی کم کرنے کا دعوے سے سٹیٹ بینک بھی متفق نہیں تو غلط نہیں ہو گا۔
انہوں نے تجویز دی کہ ملک میں مہنگائی کم کرنے کے لیے جدید معاشی اصولوں کو اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بچت کر کے اور ملک کو صرف اپنے ہی وسائل سے چلانے کی پالیسی ناکام ہو چکی۔
انڈیا 1992 سے پہلے تک ہمارے جیسی معاشی پالیسی پر چل رہا تھا۔ من موہن سنگ ڈاکٹرائین نے انڈیا کو پوری دنیا کے لیے کھول دیا۔
مقابلے کی فضا پیدا ہوئی۔ آمدن میں اضافہ ہوا اور سستی اشیا بآسانی دستیاب ہوئیں۔ چین، یورپ، امریکہ اور گلف ایسی پالیسی پر چل رہے ہیں۔
پاکستان کا درآمدات مشکل کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ اس سے مہنگائی بڑھے گی کیونکہ مقامی چیزوں کا ریٹ بھی امپورٹد اشیا کی مناسبت سے طے ہوتا ہے۔
پاکستانی مارکیٹ کو انڈیا سمیت تمام ممالک کے لیے کھول دینا چاہیے۔ مارکیٹ چیزوں کی قیمت خود طے کر لے گی۔ اس سے نہ صرف عام آدمی کا کاروبار بڑھے گا بلکہ عام آدمی کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہو سکے گا۔ شرح نمو بڑھے گی اور مہنگائی کم ہو گی۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکریٹری ظفر پراچہ صاحب نے بتایا کہ حکومت کا اگلے دو ماہ میں مہنگائی کم کرنے کا دعویٰ کسی مذاق سے کم نہیں۔
آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے بعد ڈالر ریٹ تقریباً 10 روپے سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔ دیگر ممالک اور بین الاقومی ادارے پاکستان کو قرض دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں ڈالر مزید بڑھے گا اور پیٹرولیم مصنوعات مہنگے داموں خریدنا پڑیں گی۔
حکومت جب مہنگے پیٹرولیم مصنوعات کا بوجھ عوام پر ڈالے گی تو مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔
سیلاب کی وجہ سے کپاس، سبزیاں اور پھل زیادہ درآمد کرنے ہوں گے جس سے روپے پر دباؤ بڑھے گا اور ڈالر ریٹ زیادہ ہونے سے مہنگائی میں مزید اضافے کے خدشات زیادہ ہیں۔
’اس کے علاوہ میں اس بات کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ عمومی طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان میں بھی مہنگائی کم ہو سکے گی لیکن حالات اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔‘
چند دن قبل عالمی منڈی میں خوردنی تیل سستا ہونے کے باوجود پاکستان میں تیل سستا نہیں ہو سکا۔
اس حوالے سے پاکستان بناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین عبدالوحید کے مطابق روپے کی قدر میں کمی، بجلی اور ترسیل کی لاگت میں اضافہ، انٹرنیشنل مارکیٹ میں پام آئل کی قیمت میں کمی کے اثرات صارفین تک منتقل ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
چھ ماہ کے دوران روپے کی قدر میں تیزی سے کمی آئی ہے جبکہ بجلی گیس کے نرخ کئی گنا بڑھ گئے ہیں جس سے لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔
کراچی پورٹ سے گھی تیل ملوں تک پام آئل کی ترسیل کی لاگت میں بھی مختصر عرصے کے دوران 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک کلو پام آئل کی ترسیل کی لاگت سات روپے سے بڑھ کر 15 روپے ہوچکی ہے لہٰذا قیمتیں کم نہیں کی جا سکتیں اور اگر حکومت نے معاشی پالیسی تبدیل نہ کی تو مستقبل میں قیمتیں کم کرنے کی بجائے بڑھائی جا سکتی ہیں۔
پاکستان میٹ ایکسپورٹرز اینڈ پروسیسنگ ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالحنان برآمدات اور مقامی سطح پر گوشت کی خریدوفروخت کے بڑے کاروبار سے منسلک ہیں۔
انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اثر گوشت کی قیمت پر پڑتا ہے۔ جانوروں کی خوراک کی قیمت سو گنا بڑھ چکی ہے۔
جانور بیچنے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا خرچ چند ماہ میں ڈیڑھ سو فیصد بڑھ چکا ہے۔ اگر حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا تو گوشت کی قیمت بھی بڑھ جائے گی۔
فیضان طارق پاکستان کی سب سے بڑی آٹو کمپنی کی فرنچائز کے مالک ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پبلک ٹرانسپورٹ موثر نہ ہونے کی وجہ سے گاڑی عام پاکستانی کی ضرورت بن چکی ہے۔
پچھلے کئی سالوں سے مہنگائی کے پیرامیٹرز جاننے کے لیے گاڑیوں کی قیمت کو بھی مدنظر رکھا جانے لگا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور جس طرح ڈالر بڑھ رہا ہے آنے والے دنوں میں گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
بجلی گیس اور شرح سود میں اضافے کی وجہ سے مقامی سطح پر گاڑیوں کے پارٹس بنانے والی فیکٹریاں بھی مزید قیمتیں بڑھانے پر زور دے رہی ہیں۔
اگر حکومت مستقبل میں بجلی اور گیس کی قیمتوں اور شرح سود میں مزید اضافہ کرتی ہے تو گاڑیوں کی قیمتیں بڑھ سکتی ہے جس کا بوجھ عوام پر پڑے گا۔
پاکستان میں چاول اور گندم کی بڑے پیمانے پر خریدوفروخت کرنے والے بیوپاری عمر صفدر نے بتایا کہ آنے والے دنوں میں چاول کی قیمت مزید بڑھ جائے گی۔
ایک اندازے کے مطابق پچھلے سال کی نسبت قیمت میں سو فیصد اضافہ ممکن ہے جن کے پاس مال ہے وہ سٹاک کر رہے ہیں۔
حکومت اگر مہنگائی کم کرنا چاہتی ہے تو سٹاک مافیا کے خلاف ایکشن لے لیکن ہر سال وعدے کرنے کے باوجود بھی کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔
گندم کے بارے میں ان کا کہنا ہے سندھ میں گوداموں میں رکھی ہوئی بیشتر گندم سیلاب میں بہہ گئی جس سے رسد اور طلب کا بڑا فرق پیدا ہو سکتا ہے اور گندم کی قیمت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
معاشی ماہرین اور بڑے سٹیک ہولڈرز کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ آئندہ دو ماہ میں مہنگائی کم ہونے کی بجائے بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں اور حکومتی بیان سیاسی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔