پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن نے پوشیدہ اور خفیہ طریقہ کار کے آن لائن رابطوں پر نظر رکھنے کے لیے اتوار کے روز نوٹس جاری کیا جس میں کہا گیا کہ کمیونیکیشن کے ایسے طریقہ کار جس سے کمیونیکیشن پوشیدہ یا خفیہ ہو جائے وہ پی ٹی اے کے ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔
پی ٹی اے نے اس ضمن میں کہا کہ ’پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر ادارے، غیر ملکی مشنز اور فری لانسرز جو اپنے جائز مقاصد کے لیے وی پی این استعمال کرنا چاہتے ہیں وہ وی پی این رجسٹر کرائیں۔‘
پی ٹی اے نے مزید لکھا کہ وی پی این رجسٹریشن کا عمل نہایت آسان کر دیا گیا ہے اور پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر 31 اکتوبر 2022 تک رجسٹر کرایا جا سکتا ہے۔
کمیونیکیشن کے ایسے طریقہ کار، جس سے کمیونیکیشن پوشیدہ یا خفیہ ہو جائیں، جیسے وی پی این، وہ پی ٹی اے کے ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ pic.twitter.com/3EJlusjd3s
— PTA (@PTAofficialpk) September 10, 2022
پی ٹی اے کے اس نوٹس کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین نے پی ٹی اے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے سیاسی صورتحال اور تحریک انصاف کے جلسے کے دن یو ٹیوب لنک ڈاؤن ہونے سے منسلک کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی تقریر کے وقت تو سب ہی وی پی این استعمال کرتے ہیں۔
99 فیصد لوگ VPN جس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ پاگل ہیں کہ رجسٹریشن کروائیں اور باقی عمران خان کے جلسے والے دن ان کی تقریر سننے کے لیے سارا پاکستان استمعال کرے گا وہ بھی بس ایک دو گھنٹے کے لیے
— محمد اجمل گجر M. Ajmal Gujjar (@ajmalgujjer) September 11, 2022
جبکہ صارف ضیغم خان نے لکھا کہ محفوظ رابطے کا ذریعہ استعمال کرنا جرم نہیں ہے جب تک کہ اس کو مجرمانہ فعل کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
Stop it PTA. Safe private communication is no crime, unless used for a criminal activity. People may need it for private communication, to discuss political strategy, for business and to protect themselves from revenge or harm. https://t.co/Q4o9NGWdV9
— Zaigham Khan (@zaighamkhan) September 11, 2022
سوشل میڈیا ایکٹویسٹ نگہت داد نے کہا کہ آئین نے جو بنیادی حقوق دیے ہیں وہ پی ٹی اے نہیں چھین سکتا۔ انہوں نے لکھا کہ رازداری کا حق یا معلومات تک رسائی کا حق آئین نے سب کو دے رکھا ہے۔
PTA can’t make regulations that violate fundamental rights granted by our very own constitution. Right to privacy and access to information are fundamental rights, how using VPN or encryption is illegal? #Netfreedom #DigitalRights https://t.co/c1xGkPdzf2
— Nighat Dad (@nighatdad) September 11, 2022
سوشل میڈیا بحث اس بات پر جاری ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے یہ اعلان کیوں کیا اور کیا یہ انفرادی سطح پر ہے یا اداروں کی حد تک؟
جبکہ پی ٹی اے کے بیان میں واضح لکھا ہے کہ ’پبلک پرائیویٹ ادارے اور غیر ملکی مشنز جائز مقصد کے استعمال کے لیے وی پی این رجسٹر کرائیں۔‘ اس کا اطلاق عوام پر نہیں ہوتا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے پی ٹی اے حکام سے بھی رابطہ کیا تو انہوں نے واضح کیا کہ ’یہ اداروں اور کمپنیوں کے نیٹ ورکس کی حد تک ہے جو اس کا کمرشل استعمال کرتے ہیں۔ کسی عام فرد کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے اس ضمن میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مختلف ماہرین سے بات کر کے وی پی این کے استعمال سے متعلق معلوم کرنے کی کوشش کی۔
وی پی این کیوں استعمال کیا جاتا ہے، رجسٹریشن کیوں ضروری ہے؟
ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈی جی اور ماہر امور آئی ٹی عمار جعفری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وی پی این کیا ہے۔ وی پی این یعنی ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک دو لوگوں یا دو نیٹ ورکس کے مابین ورچوئل ٹنل بن جاتا ہے جس میں بیرونی مداخلت نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ وی پی این اتنا ہی کام کرتا ہے لیکن اس میں مزید سکیورٹیز ہوتی ہیں جن کو ایس ایس ایل یعنی سکیور ساکٹس لیئر کہا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’آسان مثال ہے جیسے سڑک پہ ٹریفک جا رہی ہے تو وہاں سکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے اگر ایک پرائیویٹ ٹنل بنا لی جائے جہاں محدود افراد کے داخلے کی اجازت ہو تو وہ محفوظ ہو جاتا ہے۔ کہیں کمرشل کہیں پرائیویٹ انکرپشن ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے کہ آپ اپنا وی پی این بھی بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا پی ٹی اے کو یہاں سکیورٹی خدشات ہیں یہ ایجنسیز کو بھی ہوتے ہیں کہ کون انکرپٹ کر رہا ہے اور کون نہیں کر رہا۔
انہوں نے کہا کہ ’رجسٹر کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے پوری دنیا میں یہ ہوتا ہے۔ ابھی میں چین سے ہو کر آیا ہوں تو چین میں بھی سارا کام وی پی این پر ہے کیوں کہ وہاں اُن کو شک نہیں ہے کہ غلط کام نہیں ہو گا اس لیے رجسٹر بھی ہوتے ہیں جیسے یونیورسٹی یہ طے کرتی ہے کہ یونیورسٹی کے اندر طلبا کو وی پی این کے ذریعے انٹرنیٹ پہ رسائی دی جائے گی تو یونیورسٹی کا عمل چوں کہ تدریسی ہے شک و شبے کا معاملہ نہیں اس لیے وہ رجسٹر بھی کرا لیں گے۔‘
جب اُن سے پوچھا گیا کہ صارف وی پی این ایپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کر کے استعمال کرتا ہے تو اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے یا وہ کیسے رجسٹر کروا سکتا ہے جب وہ اُسے اون ہی نہیں کرتا؟
ان کا کہنا تھا کہ ’پراکسی کا اپنا کھیل ہے زیادہ تر پراکسیز غلط ویب سائٹ کے لیے ہی استعمال کی جاتی ہیں۔ لیکن پراکسی کو اگر فیئر مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔‘
’پی ٹی اے کا یہ نوٹس پرانا ہے‘
پاکستان میں ڈجیٹل رائٹس کے لیے سرگرم ادارے میڈیا میٹرز فار ڈیماکریسی (ایم ایم ڈی) سے منسلک اسد بیگ نے اس حوالے سے کہا کہ ’پہلی بات یہ ہے کہ یہ نیا نوٹس نہیں ہے بلکہ پرانا نوٹس ہے جسے دہرایا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پی ٹی اے کے نوٹس پہ وی پی این صرف ایک مثال ہے یہ بنیادی طور پر ہر قسم کی انکرپشن کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا ’یہ نوٹس بلکل غیر عملی ہے کیوں کہ کمیونیکیشن کی عام ٹریفک کو یہ کیسے بلاک کر سکتے ہیں۔ کیا پی ٹی اے فیس بُک کو کہہ سکتا ہے کہ اپنی ٹریفک پاکستان میں انکرپٹ نہ کریں؟‘
انہوں نے کہا کہ وی پی این استعمال کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ کی کمیونیکیشن محفوظ ہو۔ پاکستان کی آٹھ کروڑ کے قریب آبادی انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے تو آٹھ کروڑ کے سر پہ ڈنڈا رکھ کر انہیں وی پی این استعمال کرنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری پی ٹی اے سے ایک میٹنگ ہوئی تھی تو انہوں نے واضح کیا تھا کہ یہ کمپنیز کے لیے ہے جیسے کال سینٹرز یا اس کے علاوہ کوئی ادارے جو وی پی این استعمال کر کے کام کرتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر گرے ٹریفک کو روکنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
انٹرنیٹ پہ گرے ٹریفک کیا ہوتی ہے؟
اسد بیگ نے بتایا کہ گرے ٹریفک وہ ہے جو کسی طریقے سے آپ کے قانونی نیٹ ورکس کو نقصان پہنچا رہی ہوتی ہے۔ جیسے پہلے لوگ جی ایس ایم استعمال کرتے ہوئے فون کال کرتے تھے اب کالز وٹس ایپ پہ ہوتی ہیں جس سے جی ایس ایم نیٹ ورک کو نقصان ہوتا ہے، اسی وجہ سے دبئی میں وٹس ایپ کو گرے ٹریفک سمجھ کر بلاک کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کال سینٹر بھی اسی طرح ورچوئل ٹنل بنا دیتے ہیں اور اُسی سے ساری کالزکرتے ہیں اور پاکستان کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی اے نے واضح کیا تھا کہ اس کا مقصد انفرادی سطح پہ کسی کو وی پی این کا استعمال کرنے سے روکنا نہیں ہے۔