آرمینیا کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ آذربائیجان کی افواج آرمینیا میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہیں اور ساتھ ہی آرمینین وزیراعظم نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں، روسی صدر پوتن اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو آذربائیجان کی ’جارحانہ کارروائی‘ پر بذریعہ فون مطلع کیا ہے۔
آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان منگل کو بڑے پیمانے پر بارڈر پر جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر دونوں اطراف کی افواج کو نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق آرمینیا نے منگل کو کہا کہ آذربائیجان کے ساتھ جھڑپوں میں اس کے 49 فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آرمینیا کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’آذربائیجان کی افواج مارٹر، ڈرونز اور آرٹیلری کے ذریعے عسکری اور سویلین انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا رہی ہے اور دشمن (آریمینین سرحد) میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
یہ دونوں فریقین کے درمیان بارڈر پر ہونے والی بڑے پیمانے کی تازہ ترین جھڑپ ہے۔ اس سے قبل 2020 میں ان کے مشترکہ بارڈر پر فائرنگ کے تبادلے کی خبریں منظرِ عام پر آتی رہی ہیں۔
باکو اور یریوان کے درمیان ناگورنو کاراباخ کے علاقے پرتنازع برقرار ہے۔ سابق سوویت یونین نے 1921 میں نسلی آرمینیائی علاقہ آذربائیجان کے ساتھ ضم کر دیا تھا، جس کے بعد سے دونوں ممالک میں اس معاملے پر جنگی تناؤ وقتاً فوقتاً جاری رہتا ہے۔
آرمینیا کی وزارت دفاع کے مطابق، ’منگل کو پانچ بجے آذربائیجان نے آرمینیائی فوجی ٹھکانوں کے خلاف توپ خانے اور بڑی صلاحیت والے اسلحے کے ساتھ شدید گولہ باری شروع کی۔ یہ حملے آرمینیائی شہروں گورس، سوٹک اور جرموک کی سمت میں کئے گئے۔‘
آرمینیا کی وزارت دفوع کے بیان کے مطابق، آذربائیجان نے ڈرون بھی استعمال کیے۔
لیکن آذربائیجان کی وزارت دفاع نے آرمینیا پر سرحد پر دشکیسان، کیلبازار اور لاچین کے اضلاع کے قریب ’بڑے پیمانے پر تخریبی کارروائیوں‘ کا الزام عائد کیا اور مزید کہا کہ اس کی فوج کی پوزیشنیں ’خندقوں میں مارٹر سمیت گولیوں کی زد میں آئیں۔‘
آذربائیجان کی وزارت دفاع نے کوئی تعداد بتائے بغیر کہا: ’ہمارے فوجیوں کا جانی نقصان ہوا ہے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روس نے صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور دونوں فریقین کو جنگ بندی کی تلقین کی ہے۔
امریکہ کا اظہار تشویش
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکہ نے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان حالیہ جھڑپوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
The United States is deeply concerned about reports of active hostilities between Armenia and Azerbaijan. We urge an end to military hostilities immediately. There is no military solution to the conflict. https://t.co/cGeWXpbzKS
— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) September 13, 2022
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے پیر کے روز کہا کہ امریکہ آرمینیا-آذربائیجان سرحد پر حملوں کی اطلاعات پر گہری تشویش میں مبتلا ہے اور تنازعے کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، بلنکن نے ایک بیان میں کہا: ’ہم نے طویل عرصے سے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اس مسئلے میں کوئی فوجی حل نہیں ہو سکتا۔ ہم فوجی حملوں کو فوری روکنے پر زور دیتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک ہفتے قبل، آرمینیا نے آذربائیجان پر بارڈر میں فائرنگ کے تبادلے کے دوران ایک فوجی کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
اگست میں آذربائیجان نے کہا کہ اس کا ایک فوجی جان سے چلا گیا ہے جبکہ کاراباخ فوج نے کہا کہ اس کے دو فوجی ہلاک اور ایک درجن سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
ان دو پڑوسی ممالک نے ناگورنو کاراباخ پر دو جنگیں لڑی ہیں۔ ایک 1990 کی دہائی میں اور دوسری 2020 میں۔
2020 کے آخر میں چھ ہفتوں تک جاری رہنے والی لڑائی میں 6,500 سے زیادہ جانیں گئیں اور روس کی ثالثی کے بعد یہ معاملہ جنگ بندی کے ساتھ ختم ہوا۔
معاہدے کے تحت، آرمینیا نے کئی دہائیوں سے اپنے زیر کنٹرول رقبے کا حصہ چھوڑ دیا اور ماسکو نے اس نازک جنگ بندی کی نگرانی کے لیے تقریباً 2000 روسی امن دستے تعینات کیے تھے۔
اس سال مئی اور اپریل میں برسلز میں یورپی یونین کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت کے دوران، آذربائیجان کے صدر الہام علیوف اور آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان نے مستقبل کے امن معاہدے پر ’بات چیت میں پیش رفت‘ پر اتفاق کیا تھا۔
1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ناگورنو کاراباخ میں نسلی آرمینیائی علیحدگی پسند آذربائیجان سے الگ ہو گئے جس کے بعد ہونے والے تنازعے میں 30 ہزار کے قریب جانیں ضائع ہوئیں۔