پاکستانی سکواڈ میں کس کی جگہ کون اور کیوں؟

نئے سکواڈ کے اعلان سے قبل نظر ڈالتے ہیں کہ ایشیا کپ کھیلنے والی ٹیم میں کیا مسائل تھے اور وہ کون سے کھلاڑی ہیں جنہیں ٹیم کا حصہ بنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔

ایشیا کپ میں کھیلنے والا پاکستانی سکواڈ (تصویر: اے ایف پی)

ایشیا کپ تمام ہوا۔ سری لنکا فاتح بنا اور پاکستان انڈیا اور افغانستان کو شکست دیتے ہوئے فائنل تک پہنچ تو گیا لیکن جیت نہ پایا مگر فینز اور ناقدین کے لیے پاکستان کا فائنل میں پہنچنا ہی کافی نہیں تھا۔

یہ فینز اور ناقدین پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی کو بھول نہیں پا رہے ہیں اور مسلسل ٹیم میں تبدیلیوں کی باتیں کر رہے ہیں۔

ان کے دل میں غصہ اور مایوسی سری لنکا سے فائنل میں ہار کے بعد شدت سے صرف سامنے آئی حالانکہ یہ سلسلہ ایشیا کپ کے پہلے میچ کے بعد سے ہی شروع ہو گیا تھا۔

درمیان میں کچھ اچھی انفرادی پرفارمنسز نے اسے دبائے رکھا تھی مگر اس آتش فشاں کو پھٹنا ہی تھا۔

اب چوں کہ ایشیا کپ ختم ہو چکا ہے اور پاکستان کو پہلے انگلینڈ پھر نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کا سامنا کرنا ہے اور اس کے بعد آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے جانا ہے تو فینز ٹیم میں کچھ تبدیلیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یہ تبدیلیاں یقیناً پاکستان کے مڈل آرڈر کو مضبوط کرنے کے لیے کہی جا رہی ہیں لیکن خود فینز اور ناقدین بھی منقسم دکھائی دے رہے ہیں۔

اب تک کوئی ایک نام ایسا سامنے نہیں آیا ہے جس پر سب ہی متفق دکھائی دیے ہوں۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ موجودہ ٹیم کے مڈل آرڈر سے کوئی بھی خوش نہیں ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز، دورہ نیوزی لینڈ اور آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے پاکستان کے سکواڈ کا اعلان 15 ستمبر یعنی جمعرات کو کیا جائے گا۔ انگلینڈ کے خلاف سات ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچز، نیوزی لینڈ میں کھیلی جانے والی سہ فریقی سیریزاور آئی سی سی مینز ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے لیے سکواڈ کا اعلان سہ پہر 4:30 بجے بذریعہ پریس کانفرنس لاہور میں کیا جائے گا۔

قومی کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر محمد وسیم قذافی سٹیڈیم میں واقع فار اینڈ بلڈنگ میں پریس کانفرنس کریں گے۔ اس پریس کانفرنس سے ایک تو سلیکشن کمیٹی کی سوچ واضح ہو جائے گی اور یقیناً چند کھلاڑیوں کے حوالے سے سوالوں کے جواب بھی مل جائیں گے۔

نئے سکواڈ کے اعلان سے قبل نظر ڈالتے ہیں کہ ایشیا کپ کھیلنے والی ٹیم میں کیا مسائل تھے اور وہ کون سے کھلاڑی ہیں جنہیں ٹیم کا حصہ بنانے پر زور دیا جا رہے۔

ایشیا کپ کے فوراً بعد جن کھلاڑیوں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ان میں خوشدل شاہ، افتخار احمد، فخر زمان اور آصف علی شامل ہیں، جبکہ اسی ٹورنامنٹ میں تین نصف سنچریاں سکور کرنے والے محمد رضوان پر بھی تنقید تو ہو رہی ہے مگر انہیں ہٹا کر کسی اور کو موقع دیے جانے کی بات کوئی نہیں کر رہا اور شاید کوئی کر بھی نہیں سکتا۔ کیوں کہ ان کا بلا بے شک سست ہے مگر بول رہا ہے۔

آصف علی

آصف علی جو اپنی جارحانہ بیٹنگ کے لیے جانے جاتے ہیں اور اس مہارت کی وجہ سے ٹیم کا حصہ بھی ہیں۔ ان کے ایک بیان کو ہی سامنے رکھتے ہوئے ان کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

پی سی بی کی جانب سے جاری ایک ویڈیو میں آصف علی اپنی پریکٹس کے حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ پریکٹس سیشنز کے دوران 100 سے 150 چھکے لگاتے ہیں تاکہ وہ میچ کے دوران بھی چھکے لگا سکیں۔

اس سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ ان کا ٹیم میں کردار کیا ہے۔ لیکن کیا وہ اس کردار کو نبھا رہے ہیں؟

اس سوال کا جواب آپ ان اعداد و شمار میں تلاش کر لیں کہ اب تک وہ 40 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنلز میں بیٹنگ کرچکے ہیں اور ان میں سے 23 میں وہ نو یا اس سے بھی کم سکور ہی بنا سکے ہیں۔

ایشیا کپ کو ہی دیکھ لیں تو آصف علی سری لنکا کے خلاف دونوں میچوں میں بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوئے۔ انڈیا کے خلاف ایک میچ میں نو اور دوسرے میچ میں 16 رنز بنائے جبکہ افغانستان کے ساتھ میچ میں بھی 16 رنز ہی سکور کر پائے۔

خوشدل شاہ

پاکستانی مڈل آرڈر میں شامل ایک اور بلے باز جنہیں ٹیم میں شامل کرنے کا مقصد آخری کے اووروں میں جارحانہ بیٹنگ اور بڑی ہٹیں لگانا ہے وہ ہیں خوشدل شاہ۔

مگر خوشدل شاہ کا حال بھی آصف علی جیسا ہی ہے۔ انہوں نے بھی اپنی آخری 10 اننگز میں سب سے زیادہ 35 رنز ہی بنائے ہیں اور وہ بھی ہانگ کانگ کے خلاف۔

ان 10 میچوں میں صرف ایک ہی بار انہوں نے بولنگ کروائی۔ ایشیا کپ میں ان کی بیٹنگ پر نظر ڈالیں تو سری لنکا کے خلاف دو میچوں میں انہوں نے کل چھ رنز بنائے۔ انڈیا کے خلاف کل 16 اور افغانستان ساتھ میچ میں صرف ایک ہی رن سکور کر سکے۔

افتخار احمد

افتخار احمد کو ٹیم میں شامل کرنے کا مقصد بظاہر تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ قدرے ناتجربہ کار ٹیم میں ایک تجربہ کار بلے باز کے ہونے سے فائدہ ہو سکتا ہے۔

ویسے تو افتخار احمد صرف 24 بین لاقوامی ٹی ٹوئنٹی میچز ہی کھیلے ہیں مگر ان کے پاس ڈومیسٹک کرکٹ کا وسیع تجربہ ہے اور وہ اب تک 168 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیل چکے ہیں۔

مگر ان کے اس ٹیم میں ہونے سے بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا کیوں کہ انہوں نے سوائے ہانگ کانگ کے باقی تمام ٹیموں کے خلاف بیٹنگ تو کی لیکن مسئلہ ان کا سٹرائک ریٹ اور ذمہ داری سنبھال کر میچ کو آخر تک لے جانے کے بجائے غلط موقع پر غلط شاٹ کھیل کر آؤٹ ہونا تھا۔

ایشیا کپ میں انہوں نے سب سے زیادہ 32 رنز کی اننگز سری لنکا کے خلاف فائنل میں کھیلی۔ اس ک علاوہ انہوں نے دیگر میچوں میں 13، 30، 2، اور 28 رنز کی اننگز کھیلیں۔

فخر زمان

یقیناً آپ سب کو فخر زمان کی وہ اننگز تو یاد ہو گی جو انہوں نے انڈیا کے خلاف چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں کھیلی تھی مگر کیا آپ کو ماضی قریب میں ان کی کوئی اننگز یاد ہے؟

فخر زمان نے اپنی آخری 10 اننگز میں ایک سینچری (نیدرلینڈز کے خلاف ون ڈے میں) اور ایک نصف سنچری (ہانگ کانگ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میں) سکور کی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر آٹھ اننگز میں وہ صرف ایک بار 35 رنز کی اننگز ہی کھیل سکے ہیں اور وہ بھی ویسٹ انڈیز کے خلاف ون ڈے میچ میں۔

ایشیا کپ میں ہانگ کانگ کے خلاف نصف سنچری کے علاوہ وہ انڈیا کے خلاف پہلے میچ میں 10، دوسرے میچ میں 15، افغانستان کے خلاف پانچ، سری لنکا کے خلاف پہلے میچ میں 13 اور فائنل میں صفر پر آؤٹ ہوئے۔

جبکہ فخر زمان جس پوزیشن پر کھیلتے ہیں وہاں ان کا کام اوپنرز کے بعد اننگز کو مڈل اوورز تک لے جانا اور وہ بھی وقفے وقفے سے بڑی ہٹیں لگاتے ہوئے لے جانا ہے۔ مگر وہ بھی ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

محمد رضوان

اب باری آتی ہے ایشیا کپ میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے محمد رضوان کی۔ اب جب کہ وہ سب سے زیادہ رنز سکور کرنے والے کھلاڑی ہیں تو ان کی بات کیوں؟

ان پر بات اس لیے کی جا رہی ہے کہ انہیں سابق لیجنڈز سے لے کر سوشل میڈیا ’ماہرین‘ تک سب ہی سکور کرنے کے باوجود تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کی وجہ ان کا وکٹ پر آخر تک رکنا، رنز بھی بنانا نہیں بلکہ گیندیں ضائع کرنا یعنی کم سٹرائک ریٹ سے کھیلنا ہے۔

پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم سے لے کر انڈیا سنجے منجریکر تک سب ہی محمد رضوان کے بارے میں ایشیا کپ میں مسلسل کہتے رہے ہیں کہ رضوان کی نصف سنچری کا کپتان کو کوئی فائدہ نہیں۔

ایسا کیوں کہا جا رہا ہے؟

ایشیا کپ کے پہلے میچ میں محمد رضوان نے 42 گیندوں پر 102 کے سٹرائک ریٹ سے 43 رنز بنائے۔ پھر ہانگ کانگ جیسی ٹیم کے خلاف 57 گیندوں پر 78 رنز، پھر انڈیا کے خلاف 51 گیندوں پر 71 رنز کی اننگز کھیلی، افغانستان کے خلاف 26 گیندوں پر 20 اور سری لنکا کے خلاف پہلے میچ میں 14 گیندوں پر 14 اور فائنل میں 49 گیندوں پر 55 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے۔

اب ان پر تنقید کرنے والے انہیں اس انداز میں دیکھتے ہیں کہ اگر محمد رضوان تنہا اتنی گیندیں کھیلیں گے تو بعد میں آنے والوں کو موقع کب ملے گا اور انہیں موقع نہیں ملے گا تو ان کا بلا کب چلے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ محمد رضوان سکور تو کر رہے ہیں مگر اس سے ٹیم کو اس لیے فائدہ نہیں ہو پا رہا کہ بعد میں آنے والوں کے پاس گیندیں نہیں بچتیں اور وہ وکٹ پر آتے ہی چھکے چوکے نہیں لگا سکتے۔

ان تمام اعداد و شمار اور ماہرین کی رائے سے ہٹ کر پاکستان ٹیم کا کوچنگ سٹاف ٹیم کی کارکردگی سے خوش دکھائی دیتا ہے۔

پاکستان ٹیم کے کوچ ثقلین مشتاق کہتے ہیں کہ ’سب کا کرکٹ کھیلنے کا اپنا سٹائل ہے۔ ہم نے گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا اور اب ایشیا کپ کے فائنل تک پہنچے۔ لہذا شواہد بتا رہے ہیں کہ ہم کچھ صحیح کر رہے ہیں۔‘

ان کے اس قسم کے بیان سے تو لگتا ہے کہ انیس بیس کے فرق کے ساتھ یہی سکواڈ ہی اگلے میچز میں دکھائی دینے والا لہذا ٹیم میں کسی قسم کی ’بڑی‘ تبدیلی کی امید نہ ہی رکھی جائے۔

مگر کچھ ایسے ناموں کی بھی بات کر لیتے ہیں جن کی بات سب ہی کر رہے ہیں۔

حیدر علی

انڈر19 ورلڈ کپ میں اپنی جارحانہ بلے باز کا جادو دکھا کر پاکستان سپر لیگ اور پھر وہاں سے ’سرپرائز‘ کے اعزاز کے ساتھ قومی ٹیم میں جگہ بنانے والے حیدر علی بھی آج کل سب کو یاد آ رہے ہیں۔

طویل عرصے سے بینچ پر بیٹھے حیدر علی کو ایشیا کپ میں شاید ہی کوئی ایسا موقع ہو جب فینز نے یاد نہ کیا ہو۔

ویسے اگر دیکھا جائے تو حیدر علی بھی اپنی غیرذمہ دارانہ بیٹنگ کے باعث ہی آج کل بینچ پر دکھائی دے رہے ہیں مگر ان کے ٹیلنٹ کو دیکھتے ہوئے انہیں چانس دینا بنتا تھا۔

ان کی حالیہ لسٹ اے اور ڈومیسٹک اننگز کو دیکھیں تو وہ بھی کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا پائے ہیں اور آخری دس اننگز میں ان کا سب سے زیادہ انفرادی سکور 25 رہا ہے۔

ان اعداد و شمار کو دیکھ کر تو حیدر علی کو کھلانا نہیں بنتا لیکن ان اعداد شمار کی ایک بڑی وجہ ان کا طویل عرصے سے بینچ پر بیٹھے رہنا بھی ہے۔

شان مسعود

ایشیا کپ میں پاکستانی مڈل آرڈر اور خاص طور پر فخر زمان پر تنقید کرنے والے ان کی جگہ شان مسعود کو ٹیم میں شامل کرنے اور نمبر تین یا بطور اوپنر کھلانے کی بات کر رہے ہیں۔

ایسا شان مسعود کی حالیہ فارم کو دیکھ کر کہا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی فخر زمان کا دفاع کرنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ بابر اعظم اور محمد رضوان جس انداز میں کھیلتے ہیں اسی انداز میں یعنی رک کر کھیلنے والے ایک اور بلے باز کو شامل کرنا صحیح نہیں ہوگا۔

شان مسعود جو حال ہی میں انگلینڈ میں بھی اچھی کارکردگی دکھا چکے ہیں اور اس وقت پاکستان میں جاری نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ کا بھی حصہ ہیں۔

انہوں نے ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ میں تقریباً 140 کے سٹرائک ریٹ اور 45 سے زائد کی اوسط سے 547 رنز بنائے جبکہ نیشنل ٹی ٹوئنٹی میں وہ اب تک آٹھ میچوں میں تین نصف سنچریاں سکور کر چکے ہیں۔

ان کھلاڑیوں کے علاوہ شعیب ملک اور پاکستان میں جاری نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں کارکردگی دکھانے والے شرجیل خان اور عبدالواحد بنگلزئی کے نام بھی گردش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

شرجیل خان نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں ابھی حال ہیں میں سنچری سکور کر چکے ہیں جبکہ عبدالواحد بنگلزئی بلوچستان کی طرف سے اب تک آٹھ میچوں میں دو نصف سنچریاں سکور کر چکے ہیں۔

مگر جس کھلاڑی کا تذکرہ سب سے کم ہو رہا ہے وہ ہیں طیب طاہر جو اس وقت نیشنل کپ کے سب زیادہ رنز بنانے والے بلے باز ہیں۔ انہوں نے آٹھ میچوں میں چار نصف سنچریاں بنائی ہیں۔ ان کا سٹرائک ریٹ 139 سے زیادہ ہے اور رن بنانے کی اوسط 50 سے زائد ہے جبکہ وہ اب تک کل 11 چھکے اور 37 چوکے بھی لگا چکے ہیں۔

جہاں تک بات شعیب ملک کی ہے تو وہ خود ہی اپنی ایک حالیہ ٹویٹ میں کہہ چکے ہیں کہ ’ہم کب دوستیوں، پسند اور ناپسند کے کلچر سے باہر آئیں گے۔ اللہ مخلص بندے کی ہمیشہ مدد کرتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ