صحرائے تھر میں گذشتہ ایک ہفتے سے جاری ریت کے طوفان نے مقامی لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ ریت کے مسلسل طوفان کے باعث حالیہ دنوں میں ہونے والی بارش کے بعد اُگنے والی گھاس اور سڑکیں ریت میں دب گئی ہیں جبکہ کئی مویشی راستہ بھٹک کر لاپتہ ہوگئے ہیں۔
بھارت کی سرحد سے متصل سندھ کے صحرائے تھر میں پچھلے کئی سالوں سے جاری شدید قحط سالی کے باعث لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سات، آٹھ سالوں سے جاری قحط سالی کے دوران خوراک کی کمی کے باعث سینکڑوں اموات ہوچکی ہیں۔
22 ہزار کلومیٹر پر محیط صحرائے تھر کی آبادی 16 لاکھ ہے جس کی اکثریت کا گزر بسر بارانی زراعت یا مال مویشیوں پر ہے۔ قحط سالی کے باعث زراعت مکمل طور پر ختم ہوگئی ہے جبکہ بارشیں نہ ہونے کے باعث چارہ بھی ختم ہوچکا ہے۔ مقامی لوگ اپنے مویشوں کے ساتھ سینکڑوں کلومیٹر کا پیدل سفر کرکے شمالی سندھ کے مختلف اضلاع جاتے ہیں جہاں دریائے سندھ کے پانی سے زراعت کی جاتی ہے۔
سندھ میں مون سون کا موسم جون سے شروع ہوجاتا ہے مگر موسمی تبدیلیوں کے باعث چند سالوں سے یہاں مون سون تاخیر سے شروع ہورہا ہے۔ رواں برس جولائی کے 16 دن گزرنے کے باجود مون سون شروع نہیں ہوسکا۔ ایسی صورت میں ریت کے طوفان نے زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر ایک مہینے میں بارشیں شروع نہ ہوئیں تو اس سال بھی تھر شدید قحط کی لپیٹ میں رہے گا۔