پاکستان میں گندم کی قلت نہ ہونے کے باوجود صارفین کے مطابق تمام صوبوں میں روزانہ کی بنیاد پر آٹے کے قیمت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جبکہ حکومت کہتی ہے کہ ملک میں اشیا خورد و نوش کی کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہے۔
گندم کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے آٹے کے تھیلے کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ہفتے کے مقابلے میں آٹے کی قیمت میں 15 ستمبر کو ختم ہونے والے ہفتے میں تقریباً 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق آٹھ ستمبر کو دس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 774 روپے تھی جبکہ اس کے مقابلے میں 15 ستمبر کو یہی دس کلو تھیلے کی قیمت 880 روپے ہے جو تقریباً 13 فیصد اضافہ ہے۔
آٹے کے قیمتوں میں اضافہ تمام صوبوں میں دیکھا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو یہاں پر 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت تقریباً2200 روپے ہے یعنی بازار میں دس کلو تھیلے کی قیمت تقریباً 11 سو روپے ہے۔
عباداللہ کا تعلق پشاور سے ہے اور ہر مہینے فائن آٹا اور سرکاری آٹا گھر لے جا کر اس کو ملا کر پکاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قیمتوں میں روز اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ جب بھی میں آٹا لینے گیا ہوں تو 20 کلو تھیلے میں سو روپے تک اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
انہوں نے بتایا، ’سرکاری آٹا تو مجبوراً لیتا ہوں ورنہ وہ تو خوراک کے قابل ہی نہیں ہوتا لیکن ساتھ میں فائن آٹا لے کر دونوں سرکاری تھیلے اور فائن آٹے کو ملا کر گھر میں اس سے روٹی پکائی جاتی ہے جو قدرے بہتر ہوتی ہے۔‘
گذشتہ روز نیشنل فلڈ ریسپانس سنٹر کے ایک اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کو محکمہ خوراک کے اہلکاروں نے بتایا تھا کہ ملک میں گندم کی کوئی قلت نہیں ہے اور حکومت کے پاس اب بھی تقریباً 153 دن کا سٹاک موجود ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ پاکستان کی سالانہ گندم کی ضرورت تین کروڑ ٹن سے زائد ہے جس میں 20 لاکھ ٹن گندم سٹریٹیجک ریزرو کے طور پر رکھا جاتا ہے جبکہ ملک میں اب 70 لاکھ ٹن سے زائد گندم موجود ہے۔
کمیٹی کے بتایا گیا، ’70 ٹن سے زائد کی گندم آئندہ153 دنوں کے لیے کافی ہے اور یہ ختم ہونے کے بعد نئی فصل کی کٹائی کا وقت ہو گا۔ اسی وجہ سے موجود وقت میں ملک میں کسی قسم کی قلت کا خطرہ نہیں ہے۔‘
پاکستان گندم کے پیداوار میں دنیا کے دس ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جس کی سالانہ پیداوار تقریباً دو کروڑ 70 لاکھ ٹن ہے جبکہ گندم پاکستانی عوام کی خوراک کا 60 فیصد حصہ ہے۔
پچھلے مالی سال کے حکومت نے نو ملین ہیکٹیئر زمین پر 2.8 کروڑ ٹن گندم کی پیداوار کا ہدف رکھا تھا لیکن خراب موسمی حالات اور گندم کی سرکاری قیمت کی وجہ سے سپارکو کے مطابق حکومت یہ ہدف پورا نہیں کر سکی۔
یاد رہے کہ سپارکو کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا صوبہ پنجاب ہے جہاں پر ملک کے مجموعی 90 لاکھ ہیکٹیئر زمین پر 60 لاکھ ہیکٹیئر گندم پنجاب میں پیدا ہوتی ہے جبکہ باقی ماندہ گندم سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پیدا ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب اگر ملک میں گندم کی کوئی قلت نہیں ہے، اور حکومت کہتی ہے کہ آئندہ پانچ مہینوں کے لیے گندم موجود ہے تو پھر مارکیٹ میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ کیا ہے۔
یہی سوال انڈپینڈنٹ اردو نے جب پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن پنجاب چیپٹر کے چیئرمین عاصم رضا سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ حکومت بد انتظامی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کے پاس گندم پڑی ہے لیکن وہ فلور ملز کو نہیں دے رہی جس کی وجہ سے آٹے کی ملیں اوپن مارکیٹ سے گندم خریدتی ہیں، اور اس کا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا، ’فی من (40 کلوگرام) گندم کی قیمت ساڑھے تین ہزار سے چار ہزار روپے ہے اور اسی پر گندم خریدیں گے تو ظاہری بات ہے قیمتوں میں اضافہ تو ہو گا۔‘
عاصم سے جب پوچھا گیا کہ سیلاب کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ یا ترسیل کا مسئلہ تو نہیں ہے، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے سرکاری گوداموں میں پڑی گندم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
انہوں نے بتایا، ’ 80لاکھ ٹن گندم میں ایک لاکھ ٹن خراب بھی ہو جائے تو یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ اس سے کوئی قلت پیدا ہو گی یا قیمتوں میں اضافہ ہو گا لیکن حکومت فلور ملز کو گندم نہیں دے رہی اور یہی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔‘
عاصم نے بتایا، ’اب اس مسئلے کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہم کسی ہڑتال کا سوچ رہے ہیں کیونکہ ہمیں جس قیمت پر گندم ملے گی تو اسی پر آگے ہم اس کو بیچیں گے لیکن اگر حکومت کی طرف سے گندم ملتی ہے تو اس کو سرکاری نرخ پر عوام کو دیں گے۔‘
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
عامر حیات بھنڈارا ماہر اجناس و کاشت کاری ہیں اور ’ایگریکلچر ریپبلک اینڈ ڈیجیٹیل ڈیرہ‘ کے شریک بانی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں گندم سب سے زیادہ پنجاب میں پیدا ہوتی ہے لیکن سیلاب کی وجہ سے پنجاب میں گندم کو بہت زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت جو کہتی ہے کہ گندم کی کوئی کمی نہیں ہے تو بالکل صحیح کہہ رہی ہے، لیکن پچھلے سال حکومت نے کاشت کاروں سے 2200 روپے فی من خریدی تھی لیکن خریدنے کے بعد اوپن مارکیٹ میں یہ قیمت 2700 روپے فی من تک پہنچ گئی۔
امیر حیات نے بتایا،’ اب اوپن مارکیٹ میں 3500 روپے فی من مل رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جن کے پاس گندم تھی، انہوں نے وہ مارکیٹ میں لے جانا بند کر دیا تھا کیونکہ یہی وقت ہوتا ہے کہ یہ لوگ مصنوعی طریقے سے ذخیرہ اندوزی کر کے منافع کما سکیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے سندھ میں گندم سمیت گندم کے بیج کو بھی نقصان پہنچا ہے تو ابھی تو گندم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، تاہم آئندہ دنوں اور آئندہ سال گندم کی فراہمی کے لیے ایک اہم سال ہے۔
امیر حیات نے بتایا، ’گندم کا مسئلہ پوری دنیا میں سامنے آ رہا ہے اور سیلاب کی وجہ سے آئندہ سال بہت اہم ہو گا کیونکہ بیج بھی خراب ہوئی ہے تو حکومت اور بین الاقوامی ادارے کاشتکاروں کو سپورٹ کر کے ان کو سبسڈائزڈ قیمت پر گندم کا بیج دے تاکہ فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ سامنے نہ آ سکے۔‘
امیر حیات کے مطابق اس صورت حال میں گندم کی سمگلنگ کا مسئلہ بھی سامنے آتا ہے کیونکہ جن کے پاس گندم پڑی ہوتی ہے، وہ کوشش کرتے ہیں کہ گندم کو ان صوبوں میں بھیجا جائے جہاں پر قیمتیں زیادہ ہے اور اس کا بوجھ عوام کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔
قیمتوں میں اضافے پر تندور والے کہا کہتے ہیں؟
محمد عاصف پشاور کے علاقے گلبرگ میں تندور چلاتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک ہفتہ پہلے 80 کلو آٹے کی تھیلے کی قیمت آٹھ ہزار 300 روپے تھی جو اب بڑھ کر 9600 تک پہنچ گئی ہے۔
اسی طرح عاصف کے مطابق چکی کے آٹے کی 80 کلو تھیلے کی قیمت ایک ہفتہ پہلے ساڑھے سات ہزار تھی جو اب بڑھ کر آٹھ ہزار 800 تک پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے بتایا، ’سرکاری قیمت کے مطابق 130 گرام روٹی کی قیمت 20 روپے ہے جس میں اب گزارا ممکن نہیں ہے کیونکہ آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے تو سرکاری نرخ بھی بڑھایا جائے۔‘
آصف کے مطابق ’اگر حکومت کی طرف سے 150 گرام روٹی کی قیمت30 روپے کر دی جائے تو اس سے ہم کچھ نہ کچھ کما سکتے ہیں لیکن موجودہ قیمت میں بیچنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس سے ہم خسارے میں جا رہے ہیں۔‘