کیا واقعی برطانوی امداد کے آٹے کے تھیلے تقسیم نہیں ہوئے؟

زیادہ تر سوشل میڈیا صارفین یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ تصویر کراچی کی ایک دکان کی ہے جہاں پر یہ تھیلا اوپن مارکیٹ میں فروخت ہو رہا تھا جبکہ بعض صارفین کا کہنا ہے کہ یہ تصویر انڈیا کی ہے۔

آٹے کے تھیلے 11 ستمبر کو پاکستان میں ایک غیر سرکاری تنظیم ہینڈز پاکستان کی جانب سے سندھ کے علاقے نوشہرو فیروز میں تقسیم کیے گئے۔ (تصویر: ہینڈز پاکستان ٹوئٹر)

پاکستان میں گذشتہ دو دنوں سے سوشل میڈیا پر آٹے کے تھیلے کی ایک تصویر گردش کر رہی ہے جس پر بعض صارفین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ یہ آٹا پاکستانی سیلاب متاثرین کے لیے برطانیہ سے بطور امداد آیا ہے لیکن یہ دکانوں میں فروخت ہو رہا ہے۔

تصویر میں موجود آٹے کے تھیلے پر برطانوی امدادی تنظیم یو کے ایڈ کا لوگو دیکھا جا سکتا ہے جبکہ عالمی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کا لوگو بھی لگا ہوا ہے۔ اسی تھیلے پر ’ناٹ فار سیل‘ بھی لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔

زیادہ تر صارفین یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ تصویر کراچی کی ایک دکان کی ہے جہاں پر یہ تھیلا اوپن مارکیٹ میں فروخت ہو رہا تھا جبکہ بعض صارفین کا کہنا ہے کہ یہ تصویر انڈیا کی ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے ٹوئٹر پر اس تصویر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ تصویر جعلی ہے کیونکہ یو کے ایڈ یا برطانیہ کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے دی گئی امداد میں آٹا شامل نہیں ہے۔

تاہم انڈپینڈنٹ اردو نے اس تصویر کی حقیقت جاننے کے لیے جب متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز میں یو کے ایڈ کے لوگو کے ساتھ کچھ آٹے کے تھیلے تقسیم کیے گئے ہیں۔

آٹے کے یہ تھیلے 11 ستمبر کو پاکستان میں ایک غیر سرکاری تنظیم، ہینڈز پاکستان، کی جانب سے نوشہرو فیروز میں تقسیم کیے گئے۔

تنظیم نے راشن کی تقسیم کے لیے ایک تقریب کا اہتمام بھی کیا تھا جس کی تصاویر اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی موجود ہیں اور ان تصویروں میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ بانٹے گئے سامان میں آٹے کے تھیلے ہیں جن پر یو کے ایڈ کا لوگو نظر آرہا ہے۔ بعض آٹے کے تھیلوں پر کینیڈا کی امدادی تنظیم کینڈا ایڈ کا لوگو بھی موجود ہے۔

اس حوالے سے ہینڈز پاکستان کے ترجمان معاذ تنویر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ آٹے کے تھیلے ان کو ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے فراہم کیے گئے تھے اور نوشہرو فیروز کے سیلاب متاثرین میں تقسیم کیے گئے تھے۔

انہوں نے بتایا، ’یہ ورلڈ فوڈ پروگرام کا منصوبہ ہے اور پاکستان میں دیگر تنظیموں سمیت ہم بھی بطور پارٹنر کام کر رہے ہیں۔ ہینڈز پاکستان تنظیم سندھ میں نوشہرو فیروز اور سانگھڑ اضلاع میں یہ تھیلے تقسیم کر چکی ہے جبکہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے دیگر پارٹنرز دیگر اضلاع میں کام کررہے ہیں۔‘

معاذ نے بتایا کہ سندھ کے ان دو علاقوں میں اب تک سات ہزار تک آٹے کے تھیلے تقسیم کیے جا چکے ہیں جس میں بعض پر کینڈا ایڈ کا لوگو جبکہ باقی پر یو کے ایڈ کا لوگو موجود ہے۔

اس سارے معاملے پر سندھ حکومت کی جانب سے بھی موقف سامنے آیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پوسٹ کیا گیا کہ جو تصویر گردش کر رہی ہے، یہ ایک بےبنیاد پوسٹ ہے کیونکہ یو کے ایڈ اس پروگرام میں پارٹنر نہیں ہے اور ان کی طرف سے آٹے کے تھیلے فراہم نہیں کیے گئے ہیں۔

اسی پوسٹ میں مزید لکھا گیا ہے: ’یہ ایک سیاسی پروپیگنڈا ہے تاکہ امدادی کارروائیوں کو بدنام کیا جا سکے اور ضروری کام سے عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے۔‘

کیا تصویر انڈیا کی ہے؟

یہ بات تو واضح ہوگئی کہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں یو کے ایڈ کے آٹے کے تھیلے تقسیم کیے گئے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصویر کی حقیقت جاننے کے لیے کچھ فیکٹ چیک ٹولز کا بھی سہارا لیا لیکن کسی پوسٹ میں یہ تصویر انڈیا سے منسلک نظر نہیں آئی اور نہ اس حوالے سے انڈیا کی کوئی خبر موجود ہے۔

تاہم یو کے ایڈ کا انڈیا کے ساتھ ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت ایک معاہدہ ضرور موجود ہے جس کے تحت انڈیا افغانستان میں خوراک کے بحران کے وجہ سے آٹے کے تھیلے بھیج رہا ہے۔

ان آٹے کے تھیلوں پر یو کے ایڈ اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے لوگو موجود ہیں لیکن ان پر پشتو میں بھی کچھ درج ہے اور تھیلے کا وزن وغیرہ بھی پشتو میں لکھا گیا ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر وائرل تصویر میں تھیلے پر پشتو نہیں بلکہ انگریزی میں دیگر تفصیلات لکھی ہیں۔

وائرل تصویر میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ تھیلے کے ساتھ مبینہ دکان میں پڑے کچھ گھی کے ڈبے بھی موجود ہیں جن پر ’شہباز گھی‘ لکھا ہے جو ایک پاکستانی گھی کا برانڈ ہے۔ اس سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تصویر کسی پاکستانی سٹور میں لی گئی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے انڈیا کے ترجمان پرویندر سنگھ سمیت ورلڈ فوڈ پروگرام اسلام آباد اور یو کے ایڈ برطانیہ کو بذریعہ ای میل موقف جاننے کے لیے  پیغامات بھیجے ہیں تاہم ان کی طرف سے اس رپورٹ کے شائع ہونے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

ان کا جواب موصول ہونے پر رپورٹ میں شامل کر دیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل