سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی ہے جس میں چلاس کے آس پاس سے ایک کھلے ٹرک میں بہت بڑا پتھر لاد کر لے جا رہا ہے۔ یہ کوئی عام پتھر نہیں اور نہ ہی سنگ مرمر ہے جسے گلگت بلتستان سے باہر ٹائلز بنانے کے کام کے لیے بھیجا جا رہا ہے بلکہ بہت خاص ہے کیونکہ اس میں اس خطے کی قدیم تاریخ و تہذیب کنندہ ہے یعنی کہ اس میں دو سے تین ہزار سال پہلے کی منقش چٹانیں ہیں جو اس خطے کی ثقافتی اور سماجی تاریخ کو بیان کر رہی ہے۔
گو کہ اس چوری کے حوالے سے ابھی تک کوئی اخباری اطلاع موجود نہیں اور نہ ہی حکومتی سطح پر کوئی ردعمل سامنے آیا ہے لیکن اس معاملے میں چھان بین اور سخت اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
گلگت بلتستان کے ضلع چلاس میں بھاشا دیامیر ڈیم زیر تعمیر ہے جس سے نہ صرف 4500 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی بلکہ تربیلا ڈیم تک پہنچنے والی ریت اور مٹی کا زور بھی کم ہوگا۔ اس ڈیم کی سائیٹ پر اور خاص طور پر شتیال سے رائے کوٹ تک دریائے سندھ کے اطراف میں پچاس ہزار سے زائد پتھروں پر لاکھوں کی تعداد میں چٹانی نقوش اور قدیم تحریریں موجود ہیں جسے بین الاقوامی ماہرین عظیم تاریخی ورثہ قرار دے رہے ہیں۔
یہ چٹانیں صدیوں سے ان جگہوں پر پڑی ہوئی ہیں اور ان کی پہلی بار محدود سطح پر نشاندہی گلگت ایجنسی میں بطور کلرک کام کرنے والے غلام محمد نے 1906 میں اپنی کتاب ’فیسٹیول اینڈ فوک لور آف گلگت‘ میں کی تھی۔
بعد ازاں نامور مستشرق اور ماہر آرکیالوجی سر اورل سٹائن نے جب وہ 1942 میں اس خطہ اور مشرقی ترکستان کا جائزہ لینے آئے تھے تو ان چٹانوں اور اس کی تاریخی اہمیت کو قدرے ماہرانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کی کتابیں On Alexander's Track to the Indus اور Innermost Asia میں اس ثقافی ورثے کا تجزیہ موجود ہے۔
مختلف سیاحوں نے اپنے سفر ناموں میں بھی کچھ نہ کچھ ذکر ضرور کیا ہے، مگر شتیال سے رائے کوٹ تک کی تمام چٹانوں کی مکمل اور ٹیکنیکل ریسرچ اور ڈاکومنٹیش کا سہرا ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی کے شعبہ اکیڈمی آف سائنسز اینڈ ہیومینٹیز کے سر جاتا ہے جنہوں نے یہ کام حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر انجام دیا۔
1980 میں شروع ہونے والے اس تحقیقی کام کو پاک جرمن مشترکہ منصوبے کا نام دیا گیا جس کی مالی معاونت اکیڈمی، وفاقی جمہوریہ جرمنی اور صوبہ بادن ورٹمبرگ نے کی تھی۔
اس تحقیقی کام کے ذمہ دار مشہور زمانہ محقق کارل جٹمار تھے جنہوں نے ڈاکٹر احمد حسن دانی کے ساتھ مل کر تحقیق و اشاعت کا بیڑا اٹھایا۔ اس ریسرچ مشن کو کئی بین الاقوامی ماہرین لسانیات و آرکیالوجسٹ کا تعاون حاصل رہا جن میں جیراڈ فسمین نے خروشتی تحریروں، اوسکار ون ہنوبر نے براہمی تحریروں، فرائی برگ نے سوگدین تحریروں اور چینی تحریروں کی خواندگی کا کام ہالمین نے کیا تھا۔
1989 کے بعد اس مشن کی سربراہی ہیرالڈ ہوپٹمین نے کی جنہیں اب وفات ہوئے تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔
ان ماہرین کے مطابق یہ تصاویر مغربی ایشیا اور سائبیریا کی چٹانوں پر نقش وسطی حجری یا نوحجری دور کی تصاویر سے مشابہت رکھتی ہیں۔ علاؤہ ازیں ان چٹانی نقوش میں ساکا، ہخامنشی، بدھ مت، سوگدین، باختریہ، پارتھین اور وسطی فارسی کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ یوں کہا جائے تو 6000 قبل مسیح سے لےکر اسلام کی آمد تک کے مکمل انسانی سماج کی تفسیر موجود ہے۔
اس جرمن آرکیالوجیکل مشن نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ڈیم کے بننے سے 32 گاؤں زیر آب آ جائیں گے اور کنندہ کاریوں سے آراستہ چٹانوں کا بڑا حصہ تباہ ہو جائے گا جو کہ اس علاقے کی ثقافتی تاریخ کے لیے عظیم سانحہ ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مجھے خوش قسمتی سے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہاپٹمین کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جب وہ 1914میں بلتستان آئے تھے۔ اس دوران ہم خپلو پیلس (یبگو کھر) کا تجدیدی کام کر رہے تھے۔ ڈاکٹر ہاپٹمین گانگچھے میں موجود چٹانوں پر نقاشی پر کام کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں دورافتادہ گاؤں گاؤں جانے کی اجازت نہیں ملی لہٰذا انہوں نے مجھے کچھ تربیت دی اور میں نے یوں ڈاکومنٹیش کا کچھ کام کیا۔
اس دوران وہ بڑے متفکر تھے اور بار بار اپنے سفارت خانے کو فون کرتے تھے کہ بھاشا دیامیر ڈیم میں موجود منقش چٹانوں کو بچانے کے لیے کچھ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ڈیم بھی ناگزیر ہے لہذا ان اہم منقش چٹانوں کو لیزر کے ذریعے کاٹ کر یا بڑے بولڈرز کو چلاس میں ایک میوزیم بنا کر اس میں رکھا جا سکتا ہے تاکہ یہ عظیم ورثہ محفوظ ہو جائے۔
ڈاکٹر ہوپٹمین بتا رہے تھے کہ 32000 سے زائد تصاویر اور تحریروں کو 27 جلدوں میں Antiquities of Northern Pakistan کے نام سے محفوظ کیا گیا ہے اور مزید کام جاری ہے۔
ایک طرف تو یہ کوششیں ہیں جو اس خطے کی قدیم تاریخ و تہذیب کو بچانے کے لیے کی جا رہی ہیں جبکہ دوسری جانب نہ تو وفاق کو اور نہ ہی گلگت بلتستان کی صوبائی حکومتوں کو اپنے درخشاں ثقافتی ورثہ کی کوئی غرض ہے۔
گلگت بلتستان کا خطہ اپنی مخصوص جغرافیائی اور تاریخی شناخت رکھتا ہے یہاں پر چھ کے قریب چھوٹی بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں شینا اور بلتی بڑی زبانیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان کی تمام زبانیں معدومیت کی طرف گامزن ہیں اور اس کی بنیادی وجہ حکومت کا ان زبانوں کے بچاؤ کے لیے توجہ نہ دینا ہے۔
چونکہ گلگت بلتستان ابھی تک آزادی کے حصول کے باوجود اپنی آئینی شناخت کے لیے سرگرداں ہے ایسے میں یہاں کی زبان وثقافت کے بچاؤ کے لیے کیا ہوسکتا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ قومی مردم شُماری میں بھی یہاں کی زبانوں کا اندارج ’دیگر‘ کے خانے میں رکھا گیا ہے یہ ایسا قدم ہے جس طرح ستر سال تک اس خطے کو ’شمالی علاقہ جات‘ جیسا مبہم نام دیا گیا تھا۔
ایسے حالات میں اب جب چلاس سے تاریخی ورثے کو ٹرکوں کے سمگل کرنے کی خبر آئی تو حیرت نہیں ہوئی کیونکہ گلگت بلتستان کی معدنیات، جنگل اور ارٹیفیکٹ تو پہلے سے ہی بغیر اجازت کے دیگر شہروں میں منتقل ہو رہے تھے اب ان چٹانی منقش ورثہ میں بھی ہاتھ صاف کیا جا رہا ہے۔
پیٹر ہوپرک اپنی کتاب ’دا گریٹ گیم‘ کے حوالے سے مشہور ہیں۔ انہوں نے The Foreign Devil in the Silk Road کے نام سے بھی ایک اور کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح مشرقی ترکستان میں موجود دبی تہذیب کا ورثہ نکال کر یورپی مشترقین اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
خیر وہ تو شاید اپنے اپنے ملکوں میوزیم میں سنبھال کر رکھ گئے ہوں گے اورتحقیق کام بھی شاید شائع کیا ہو مگر یہ The National Devils in the Karakorum Highway نہ جانے ان چٹانوں کو کہاں سمگل کر رہے ہیں اور کس کے ہاتھوں بیچ رہے ہیں۔
گلگت بلتستان میں نہ کوئی سرکاری میوزیم ہے اور نہ ہی تاریخی آثار کو بچانے کے لیے کام ہو رہا ہے۔ صرف آغا خان کلچرل سروس پاکستان نے کچھ قلعے اور آستانے محفوظ کیے ہیں۔
گلگت بلتستان کے دیگر شہروں کا تو کچھ پتہ نہیں بلتستان سے بڑے عرصے سے آثارِ قدیمہ کو سمگل کر کے پشاور اور دیگر شہروں میں پہنچایا جارہا تھا۔ جناب یوسف حسین آبادی نے اس ضمن میں بڑی جدوجہد کی انہوں نے ضلعی انتظامیہ کو درخواست دے کر نوادرات کے سمگل کا کام بڑی حد تک رکوایا۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنی زندگی کی جمع پونجی خرچ کر کے ان آثار کو منہ مانگی قیمت پر خریدا اور بلتستان میں نجی میوزیم قائم کیا۔
انہی سے متاثر ہو کر ہمارے عزیز بشارت ساقی نے بھی کافی اشیاء خرید کر محفوظ کی ہیں جبکہ خپلو پیلس میں بھی کچھ اشیاء میوزیم میں رکھی گئی ہیں، لیکن جب تک سرکاری سطح پر اس انمول ورثے کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا، یہ کوششیں آٹے میں نمک کے برابر رہیں گی۔